سیرا مورینو، اسپینکیمقامی پہاڑی سلسلے کے قریب رہنے والے 72سالہ ہسپانوی شہری دنیا میں انسانوں کے ساتھ عرصہ گزارنے کی وجہ سے انتہائی مایوسی کا شکار ہیں اور ا ب وہ اپنی اصل دنیا میں لوٹ جانا چاہتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق مارکوس روڈرگز پینٹوجا نامی شخص کو اس کے والدین نے جو غالباً اسی پہاڑی سلسلے کے قریب رہتے تھے 7سال کی عمر میں چھوڑ دیا اور پھر وہ پلٹ کر بھی اس جگہ نہیں آئے جہاں اس کمسن بچے کو چھوڑا گیا تھا۔ انہیں اندازہ تھاکہ شاید علاقے میں رہنے والے پہاڑی بھیڑیئے اسے ہلاک کرچکے ہوںگے۔ مگر کہا جاتا ہے کہ جسیاللہ رکھے اسے کون چکھے۔ کمسن بچے کو دیکھ کر پہاڑو ںمیں رہنے والے وحشی بھیڑیوں کو بھی رحم آگیا اور وہ اسے اپنے ساتھ اس غار میں لے گئے جہاں وہ خود رہتے تھے۔ مارکوس 12سال تک ان وحشی اور خطرناک بھیڑیوں کے ساتھ بیحد آرام سے رہا اور پھر انسانوں سے ملنے کا شوق ہوا تو غاروں سے نکل پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے بھیڑیوں سے دور ہونے اور غاروں سے نکلنے کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ کسی سیاح کی ان پر نظر پڑی اور اس نے باقاعدہ مہم چلائی تاکہ یہ انسان جانوروں کی بستی میں رہنے کے بجائے عام انسانوں کے ساتھ رہن سہن اختیار کرے۔ ان تنظیموں وغیرہ کی کوشش سے یہ انسانوں سے ضرورآملا اور اب اس کی عمر 32سال ہوچکی ہے وہ اسپین کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے مگر اپنے ’’پرانے گھر اور پرانے لوگ ‘‘ بڑی شدت سے اسے یاد آنے لگے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنی موجودہ مایوسی ختم کرنے کیلئے کسی بھی طرح وحشی سمجھے جانے والے ان بھیڑیوں کے پاس چلا جائے اور پھر اپنے تعلقات بحال کرکے باقی زندگی وہیں گزار دے۔ تفصیلا ت کے مطابق وحشی بھیڑوں کے ہتھے چڑھنے کے بعد مارکوس نے بھیڑیوں کا ہی انداز اختیار کرلیا۔ وہ ان کی طرح ہی چیختا چلاتا تھا اور زیادہ تر گوشت اور درختوں کی جڑی بوٹیاں کھا کر زندہ رہتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کچھ بھیڑیئے اپنے کسی ساتھی کو آواز دینے کیلئے جب بھی چیختے تو یہ بھی ان کا ہم نوا بن کر ساتھ ساتھ چیخنے لگتا اور بھیڑیوں کو بھی حیرت نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہ گزشتہ 12بر س سے اس کی پرورش کررہے تھے۔ بی سی سی کی اطلاع کے مطابق مارکوس کی ماں اس وقت مر گئی تھی جب اسکی عمر تین سال تھی ماں کے مرنے کے بعد باپ اس پر تشدد کرتا اور پھر اسے وحشی درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔