موصل:عراق کا شمار کبھی خطے کے خوشحال ممالک میں ہوتا تھا مگر پہلے امریکا نے اور اس کے بعد داعش نے اسے ایسا بربادکیا ہے کہ عام عراقیوں کے لئے زندگی ایک مسلسل عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ جہاں اور بہت سے مسائل نے اس ملک کو گھیر رکھا ہے وہیں ایک مسئلہ لاکھوں کی تعداد میں بن بیاہی بیٹھی لڑکیاں ہیں جن کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں۔ مردوں کی بڑی تعداد خانہ جنگی کی نظر ہو گئی اور جو بچ گئے ہیں ان کے پاس زندہ رہنے کے اسباب نہیں، وہ گھر کیسے بسائیں گے؟موصل شہر سے تعلق رکھنے والی خلود بھی ایک نوجوان عراقی لڑکی ہے جو یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر چکی ہے اور جلد از جلد شادی کے بندھن میں بندھنا چاہتی ہے مگر بے شمار دیگر عراقی لڑکیوں کی طرح اس کا بھی یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ گلف نیوز سے بات کرتے ہوئے خلود کا کہنا تھا کہ ”میرے پاس کوئی ملازمت نہیں ہے اور میری شادی بھی نہیں ہورہی ہے۔میرے پاس ابھی بھی خاوند تلاش کرنے کی کچھ امید باقی ہے لیکن میری بڑی بہن 29 سال کی ہوچکی ہے اور اس کے لئے امید تقریباً ختم ہوچکی ہے۔“