افغانستان کا جنوبی شہر قندھار منگل کو ایک ہولناک بم دھماکے سے لرز اٹھا۔ دھماکے کے بعد شہر کے ایک حصے پر دھویں اور گرد کے بادل چھا گئے جو دور دور سے دیکھے جا سکتے تھے۔ دھماکے میں 16 افراد ہلاک اور 38 زخمی ہوگئے ہیں۔ جبکہ ہلاکتیں مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
افغان حکام کے مطابق بم دھماکہ شہر کے مضافاتی علاقے میں ایک سیکورٹی چی پوسٹ کے قریب ہوا۔ افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ چیک پوسٹ کے قریب دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک منی بس لاوارث کھڑی ملی تھی تاہم اس سے پہلے کہ دھماکہ خیز مواد ناکارہ بنایا جاتا وہ پھٹ گیا۔ دھماکے سے عمارتیں تباہ ہوگئیں اور بڑی تعداد میں لوگ ملبے تلے دب گئے۔ افغان حکام نے 16 ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مزید افراد ملبے کے نیچے موجود ہوسکتے ہیں۔
مرنے والوں میں اکثریت سیکورٹی اہلکار ہونے کا شبہ ہے۔
افغانستان کے پشتو زبان کے ذرائع ابلاغ نے دھماکے کے بعد کی تصاویر جاری کی ہیں جن میں شہر پر دھویں اور گرد کے بادل دیکھے جا سکتے ہیں۔
میوند دھماکے کی تحقیقات کا طالبان اعلان
منگل کو قندھار میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تاہم ایک روز قبل یعنی پیر کو صوبہ قندھار ہی کے ضلع میوند میں دھماکے سے پانچ اہلکاروں کی ہلاکت پر طالبان نے تحقیقات میں تعاون کی پیش کش کی ہے۔
طالبان نے ذرائع ابلاغ کو جاری ایک بیان میں کہاکہ پیر 21مئی کو صوبہ قندھار ضلع میوند میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کے پانچ اہلکار کابل انتظامیہ کے فوجی مراکز کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے قتل ہوئے،اس کے بعد اطلاع ملی کہ یہ افراد ٹاپی منصوبے کےسروے کرنیوالے افراد تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ امارت اسلامیہ (افغان طالبان) ملک میں بڑے قومی منصوبوں کی تکمیل کے لیے ہر قسم کی تعاون کے لیے آمادہ ہے اوران تمام پہلوؤں کو تسلی دیتی ہے ، کہ اپنے ان وعدوں پر قائم ہیں،جو منصوبے کے دوران کیے گئے تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ قندھار کے حالیہ واقعے کے بارے میں امارت اسلامیہ مکمل تحقیقات کرےگی۔ تاکہ واقعہ کے حقیقت کو معلوم کریں۔