پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹرسروسزانٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مشترکہ طور پر تحریر کی گئی کتاب میں جہاں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کئی دعوے کیے ہیں وہیں بھارت کے ساتھ کنفیڈریشن اور بالآخراکھنڈ بھارت سے متعلق انتہا پسند ہندوؤں کا خواب پورا ہونے کی حمایت بھی کی ہے۔ سابق آئی ایس آئی سربراہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے اس مؤقف کو پاکستان میں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اسی کتاب میں ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے تسلیم کیا ہے کہ سابق بھارتی وزیراعظم واجپائی جب فروری 1999 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران مینار پاکستان پر گئے تھے تو انہوں نے اکھنڈبھارت کے نظریے کی نفی کر دی تھی۔ تاہم اس کے باوجود اسد درانی برصغیر میں سرحدوں کے خاتمے کی بات کرتے رہے۔
سابق آئی ایس آئی چیف نے پاکستان کے قومی مؤقف کے برعکس یہ بات کتاب کے آخری دوابواب میں کی ہے۔ 32 ویں باب میں اکھنڈ بھارت کا راگ دہرانے کے بعد وہ 33ویں باب میں اپنے نظریات بدلنے کی وجہ بھی بتا دیتے ہیں۔’’اسپائی کرونیکلز‘‘ کے نام سے یہ کتاب اسد درانی، دولت اور بھارتی صحافی آدتیہ سنہا کے درمیان مکالمے کی صورت میں لکھی گئی ہے۔ کتاب کے 32 ویں باب کا عنوان ’’اکھنڈ بھارت کنفیڈرریشن ڈاکٹرائن‘‘ ہے۔ اس باب کے شروع میں اے ایس دولت نے 1947 کے فسادات کی تلخ یادوں اور کشمیر کی جنگ کو دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت میں رکاوٹ قرار دیا اور کہا کہ مفاہمت کے کئی مواقع ضائع ہوگئے۔اس کے جواب میں درانی کہتے ہیں،’’کچھ بھی ہمیشہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ 1947 ہمیشہ کے لیے نہیں رہے گا۔‘‘ جنرل درانی نے سابق بھارتی وزیراعظم آئی کے گجرال کے ڈاکٹرائن کا ذکر کیا اور کہا کہ اس نظریے کے تحت دونوں ممالک کے پنجاب اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان لوگوں کو ایک دوسرے سے گھلنے ملنے دیا جائے۔ انہوں نے اسے ’’سب ریجنلائزیشن‘‘ کا نام دیا۔
درانی کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھارتی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ امریندر سنگھ اور شہباز شریف باہمی تعلقات کے حوالے سے جو کچھ کر رہے تھے وہ گجرال کا ہی نظریہ تھا، لیکن یہ سلسلہ اس لیے رک گیا کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ خوف کا شکار ہوگئی۔ اس موقع پر آدتیہ سنہا کہتے ہیں، ’’جنرل صاحب(اسد درانی) اکھنڈ بھارت کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں‘‘ ۔ اے ایس دولت نے کہا ، ’’اکھنڈ بھارت ایک پاگل پن پر مبنی غیرعملی نظریہ تھا، یہ انتہائی دائیں بازو کی طرف سے آیا، کسی موقع پر ایڈوانی بھی اس کے قائل ہوگئے، اسے ختم کرنے والے واجپائی تھے جب وہ فروری 1999 میں پاکستان کے دورے کے دوران مینار پاکستان پر گئے۔ اس کے بعد این ڈی اے(بھارتی حکمران اتحاد) نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔‘‘ تاہم اسد درانی نے جواب میں کہا کہ اکھنڈ بھارت اتنا خیالی بھی نہیں، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ محمد علی جناح کا حتمی مقصد پاکستان نہیں تھا بلکہ انہوں نے یہ بات مسلمانوں کے لیے بہترین ڈیل حاصل کرنے کیلئے کی، وہ مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری چاہتے تھے، یہی بات امریکی تاریخ دان اسٹیفن کوہن نے بھی کہی، بہت سے لوگ تقسیم ہند کو غلطی کہیں گے کہ اس سے مسلمانوں کو کیا ملا، عراق، بحرین اور جنوبی افریقہ میں اقلیتیں مظالم کا شکار نہیں ہوئیں، تقسیم سے کئی مسائل پیدا ہوئے، بنگلہ دیش بنا، کشمیر کا مسئلہ بنا۔ دولت نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ مولاناابولکلام نے بھی کہا کہ تقسیم ضروری نہیں تھی اور یہ کہ ہمارے(کانگریس کے) رہنما اس کے ذمہ دار تھے۔
درانی نے کہاکہ تقسیم سے مسائل پیدا ہوئے لیکن فوری طور پر سرحدوں کو ختم اور ایک متحد ہندوستان قائم نہیں کیا جاسکتا، پاکستانی اپنی آزادی میں خوش ہیں، متحد ہندوستان میں انہیں یہ آزادی حاصل نہ ہوتی۔ہم تاریخ کو بدل نہیں سکتے۔ درانی کا کہنا تھا کہ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بیک چینلز سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ، ’’اس وقت ایک اتحاد یا یورپی یونین جیسی یونین نہیں بنائی جا سکتی لیکن کسی موقع پر ہم ایک مشترکہ کرنسی اور قوانین کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ،جب ہم نئی جنوبی ایشیا یونین قائم کریں گے ۔ایک کنفیڈریشن آف سائوتھ ایشیا۔‘‘ درانی نے مزید کہا، ’’شاید ہم اتنے بڑے پراجیکٹ کے لیے تیار نہیں، لیکن ہم سرحدوں کو نرم کرکے اس کے عناصر پر کام کر سکتے ہیں، جیسا کہ کشمیر، اور پھر وقت کے ساتھ انہیں (سرحدوں کو) بے معنی بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد پانچ یا دس برس بعد اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ دہلی اس یونین کا دارالحکومت ہوگا، مسلح افواج ایک دوسرے میں شامل ہوں گی، افواج کی تعداد تناسب کے لحاظ سے کم کی جائے گی، سو برس میں اکھنڈ بھارت کے بیشتر مطالبات پورے ہو چکے ہوں گے۔‘‘
درانی نے اس سلسلے میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے متحد ہونے کا حوالہ دیا۔ اسد درانی کی اس بات پر خوش ہوتے ہوئے اے ایس دولت نے کہاکہ اگر اکھنڈ بھارت سے متعلق ان کا نظریہ مختلف ہے لیکن میں ان(درانی) کی تجویز کی تائید کرتا ہوں ۔ دولت نے وضاحت کی کہ اکھنڈ بھارت سے متعلق انتہا پسند ہندوئوں کا نظریہ ایران اور انڈونیشیا تک حکمرانی ہے۔ دولت کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرحدوں میں ردوبدل آسان نہیں ہے۔ تاہم اسد درانی کا اصرار تھا کہ یہ مشکل نہیں ہے، سرحدیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے یوکرائن کی سرحدوں میں تبدیلی اور کریمیا بننے ، بنگلہ دیش کے قیام اور سکم کی سرحدوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خود مختار پشتونستان کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ افغان اپنی سرحدوں میں رہنا چاہتے ہیں لیکن اگر پشتونستان بنا تویہ پاکستان کا صوبہ بن جائے گا جس کا دارالحکومت پشاوریا قندھار ہوگا۔ مجھے ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ پاک افغان کنفیڈریشن کے امکانات پاک بھارت کنفیڈریشن سے زیادہ تھے، یہ آئیڈیا 50 برس پرانا ہے۔
دولت نے دعویٰ کیا کہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنرعزیز خان نے انہیں بتایا کہ پاکستان کی جانب سے حریت کانفرنس کو مشورہ دیا جا تا رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ بات چیت کریں۔ کتاب کے آخری باب نمبر 33 میں درانی نے ان کے موجودہ خیالات ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونی دنیا کے لوگوں سے میل جول کا نتیجہ ہیں۔ اسد درانی نے کتاب میں کئی جگہ کہا کہ وہ پاک بھارت ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا حصہ رہے ہیں اور انہیں کا بھارتی نائب صدر حامد انصاری سے رابطہ رہا ہے۔