کراچی: سندھ پولیس کے نئے آئی جی امجد جاوید سلیمی نے سندھ پولیس کو شتر بے مہار اور غیر منظم فورس قرار دیتے ہوئے پولیس اور صوبے میں مجرمانہ سرگرمیوں کے معاملات سائنٹیفک بنیادوں پر کنٹرول کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
جمعہ کو سندھ پولیس کی کمان سنبھالنے کے بعد سینٹرل پولیس ہیڈ آفس میں سندھ پولیس کے پہلے اجلاس میں بریفنگ لینے کے بعد خطاب کرتے ہوئے امجد جاوید سلیمی نے ادارے میں بہت کچھ کرنے کے اشارے دیے۔نئے آئی جی کی سربراہی میں سندھ پولیس کا یہ طویل ترین اجلاس تھا جس کے پہلے مرحلے میں اجلاس میں شریک ایڈیشنل آئی جیز ثناءاللہ عباسی، مشتاق مہر، غلام قادر تھیبو، آفتاب پٹھان، ولی اللہ دل، امیر شیخ، ڈی آئی جیز نعیم شیخ، عامر فاروقی، آزاد خان، جاوید اکبر ریاض، ذوالفقار لاڑک، شرجیل کھرل، اور دیگر افسران سے تفصیلی تعارف کرایا گیا۔
اجلاس کے دوسرے مرحلے میں ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر نے انہیں کراچی کے حوالے سے بریفنگ اورکراچی اور سندھ کے دیگر اضلاع میں دہشت گردی اور جرائم کے حوالے سے آگاہی دی گئی۔
انہوں نے اسٹریٹ کرائم، ڈکیٹی، رہزنی کی دیگر وارداتوں کے حوالے سے پولیس کی کوششوں کو ناکافی اور فورس کی ناکامی قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم روکنے کےلئے پولیس جو وسائل یا ٹیکنیک استعمال کرتی رہی ہے وہ پتھر کے زمانے کی ہے۔ اسٹریٹ کرمنلز کا مقابلہ کرنے کے لیے فورس کو سائنسی بنیادوں پر منظم کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں اقدامات کی وہ خود نگرانی کریں گے۔امجد جاوید سلیمی نے اپنے تجربے کی بنیاد پر حکام کو واضح کیا کہ سندھ پولیس کی نفری میں کرمنل ایلیمنٹس اور مجرمانہ کردار کے حامل افراد موجود ہیں جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو سپورٹ کرتے ہیں اور پولیس کی ناکامی وہیں سے شروع ہوجاتی ہے۔آئی جی سندھ نے کہا کہ اس سلسلے میں اگرچہ پولیس میں کام جاری ہے تاہم پہلے مرحلے میں اسے انجام سے دوچار کرنا پڑے گا۔
امجد جاوید سلیمی نے سندھ پولیس میں انویسٹی گیشن کے حوالے سے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔انہوں نے اعلان کیا کہ سندھ پولیس میں تفتیش کے حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور تفتیشی افسران کی سائنسی بنیادوں پر تربیت کو اہمیت دی جائے گی۔نئے پولیس چیف نے کہا کہ سندھ پولیس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے فوری کام کرنے کی کوشش کی جائے گی۔شہر میں سیکورٹی کے حوالے سے سی سی ٹی وی کیمروں کے نظام پر بھی انہوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔امجد جاوید سلیمی نے کہا کہ سی سی ٹی وی کیمروں اور کمانڈ کنٹرول کا نظام پولیسنگ کے جدید تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
سندھ پولیس میں مواصلات کے نظام پر بھی انہوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس موبائلز میں کالنگ کا نظام عملاً ترک کیا جاچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ پولیس کی دیگر صوبہ یا ملک کے دیگر اداروں سے کوآرڈینیشن یا رابطے تو دور کی بات لگتے ہیں پولیس فورس کے اپنے ہی مختلف شعبوں میں ایک دوسرے سے رابطوں کا فقدان ہے۔
ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس ایک بے ربط فورس ہے اور لگتا ہے کہ صوبہ میں پولیسنگ نہیں ہو رہی بلکہ کچھ اورہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سسٹم اور وسائل کے حساب سے سندھ پولیس اگر اپنے آپ کو بھی بچا لیں تو بڑی بات ہے ،پانچ سال کے دوران صوبے خصوصا کراچی میں مجرمانہ سرگرمیوں کی بریفنگ کے بعد انہوں نے کہا کہ ماضی اور گزشتہ 5 سال میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں روکنے کے لیے کوئی بڑا فرق سامنے نہیں آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کم کرنے میں پولیس نہیں بلکہ دیگر ملکی اداروں کا بڑا کردار ہے۔ ڈکیتی کی وارداتیں اگرچہ کم ہوئی ہے لیکن چوری کی وارداتیں بھی کم ہونی چاہیے تھیں۔ موٹر سائیکل اور کار لفٹر اس جدید دور میں بھی وارداتیں کرنے اور فرار ہونے میں کامیاب کیسے ہوتے رہے۔
نئے آئی جی سندھ نے عید کے موقع پر سیکورٹی انتظامات کے سلسلے میں سخت ہدایات دیں۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں تمام برادریوں کے شہریوں کے تحفظات دور کریں گے، کسی مہاجر کو کوئی مسئلہ ہے تو اسے حل کریں گے، کوئی سندھی کسی پرابلم میں ہے تو اسکی بعد بھی سنیں گے۔انہوں نے کہا کہ میرا انتخاب صوبے میں منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے کیا گیا ہے، ہم نے ہر صورت الیکشن کمیشن کے اقامات پر فوری طور پر عمل درآمد کرنا ہے، الیکشن کمیشن کو منصفانہ انتخابات کے لیے سپورٹ کرنا ہے، الیکشن کمیشن جو کہے گا اس پر من وعن عملدرآمد کرنا ہماری ذمہ داری ہوگی۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس کارکردگی کا سادہ سا فارمولا ہے کہ جو پولیس افسر کام کرے گا وہ میری ٹیم میں رہے گا جو کام نہیں کرے گا اسے وہ خود فارغ کر دیں گے۔