کرکٹ میں پیسے کی بھرمارکے بعد فکسنگ واقعات بھی تواتر سے سامنے آرہے ہیں، اس حوالے سے ہر روز نت نئی انکشافات ہوتے ہیں، اب کھیل سے ناجائز انداز سے رقم کمانے کا ایک منفرد واقعہ سامنے آیا ہے۔پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کے دوران2سابق پاکستانی کرکٹرز اور ایک آفیشل کی جانب سے فرنچائز کے نام پر رقم بٹورنے کا انکشاف ہوا ہے۔
تینوں نے مل کر ایک کمپنی بنائی اور کہا کہ ایک فرنچائزکے کوچ اورآفیشل ہمارے ساتھ ہیں، انھیں رولیکس کی قیمتی گھڑیاں اور گاڑیاں بھی دی ہیں، مذکورہ ٹیم لگاتار2 میچز ہار جائے گی، اس دعوے کو سچ سمجھ کر جواریوں نے کافی پیسہ لگا دیا، جب مذکورہ فرنچائز اتفاق سے پہلا میچ ہار گئی تو مذکورہ تینوں افراد نے دعویٰ کرنا شروع کر دیاکہ ایسا ہماری وجہ سے ہوا، اس پر مزید رقوم موصول ہوئیں، مگر ٹیم نے دوسرا میچ جیت لیا، پیسہ ڈوبنے پر لوگوں نے شور مچا دیا اور بعض شخصیات نے مذکورہ ٹیم سے رابطہ کیا، یہ سب باتیں جان کر آفیشلز حیران رہ گئے اور کسی ایسی کمپنی کا حصہ ہونے سے صاف انکارکیا۔
انھوں نے واقعے کی پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کو رپورٹ بھی کر دی، اس کے بعد معاملے پر مزید کارروائی نہیں ہو سکی، یاد رہے کہ پی ایس ایل ٹو کے دوران ہی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سامنے آیا تھا جس میں کئی کھلاڑیوں کو سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ کمپنی میں شامل ایک ٹیسٹ کرکٹرکا نام کئی دیگر فکسنگ اسکینڈلز میں بھی رپورٹ ہو چکا ہے، دوسرے انٹرنیشنل کرکٹر ٹی وی چینلز پر بطور ماہر تبصرے کرتے بھی دکھائی دیتے رہتے ہیں۔
دوسری جانب پی سی بی کے ڈائریکٹر سیکیورٹی اینڈ اینٹی کرپشن کرنل (ر) اعظم نے کہاکہ پی ایس ایل میں بہت سخت ضابطہ اخلاق لاگو ہے تاکہ فرنچائز مالکان و پلیئرز کسی غلط سرگرمی کا حصہ نہ بن سکیں۔
انھوں نے کہا کہ پی ایس ایل ٹو میں سامنے آنے والے اسکینڈل کے بعد ہم نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے، اب ہمیں کوئی بھنک بھی پڑی کہ فلاں میچ میں کچھ گڑبڑ ہونے والی ہے تو اسے پہلے ہی روک لیں گے، اس قسم کے معاملات سے ملک کی ہی بدنامی ہوتی ہے لہذا احتیاط ضروری ہے۔
پی سی بی کے ڈائریکٹر سیکیورٹی اینڈ اینٹی کرپشن کرنل (ر) اعظم نے کہا ہے کہ ہمیں پی ایس ایل ٹو کے دوران کسی کی جانب سے سٹے بازی کیلیے کمپنی بنانے کا علم نہیں، میری دانست کے مطابق کسی فرنچائز نے ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں کیا، البتہ ایسی کمپنیز مختلف لوگ بناتے رہتے ہیں چونکہ سابق کھلاڑی پروفیشنل کرکٹ کھیل چکے ہوتے لہذا انھیں اس کی خاصی سمجھ بوجھ ہوتی ہے، وہ اپنے اندازوں پر چلتے ہیں جو بعض اوقات درست بھی ثابت ہو جاتے ہیں،انھوں نے کہا کہ پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والے بھی کوڈ آف کنڈکٹ کے پابند ہوتے اور شرطیں نہیں لگا سکتے لیکن سابق کھلاڑیوں کو پکڑنا آسان نہیں ہے۔