اسلام آباد: چیف جسٹس نے ملک میں بڑھتی آبادی کے خلاف درخواست پر ریمارکس دیئے کہ شرح آبادی پر کنٹرول کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ آبادی کے حوالے سے معاملہ قومی فریضہ ہے اور اس حوالے سے فریقین کو خاکہ بناکر عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ملک میں بڑھتی آبادی کےخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، ہم کس چکر میں پھنس گئے ہیں کہس بچے کم پیدا کرنا اسلام کے خلاف ہے، کیا ملک اس قابل ہے کہ ایک گھر میں 7 بچے پیدا ہوں؟ کیا ملک میں اتنے وسائل ہیں؟اس حوالے سے عوامی آگاہی مہم بالکل صفرہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ بم ہے۔ چین نے اپنی آبادی کنٹرول کی ہے۔ وفاقی حکومت نے آبادی میں اضافے پر قابو پانے کے لئے اب تک کتنا پیسہ استعمال کیا؟ ایوب خان دور میں بھی آبادی میں اضافے کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لئے پالیسی تھی۔
چیف جسٹس نے ڈپٹی سیکریٹری صحت پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت بتائے فلاحی مراکز چلانے کے لئے کتنا بجٹ ہے؟ اس پر ڈپٹی سیکریٹری نے بتایا کہ 459 .1 ملین روپے سالانہ ملتے ہیں۔ 3.6 ملین روپے پی ایس ڈی پی سے آتے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کے لئے پانی اور خوراک جیسے وسائل نہیں، پیدا ہونے والے بچوں کو پانی اور خوراک نہیں ملے گی۔
اس موقع پر سیکریٹری صحت خیبرپختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان نے ابھی تک آبادی پالیسی تشکیل ہی نہیں دی۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے پورے ملک کے لئے یکساں پالیسی بنانی ہے۔ شرح آبادی پر کنٹرول کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ آبادی کے حوالے سے معاملہ قومی فریضہ ہے، آبادی کنٹرول کے حوالے سے تمام منصوبے کاغذوں کی حد تک ہیں۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ فریقین اس حوالے سے ایک خاکہ بنائیں اور ہمیں چیمبر یا عدالت میں پیش کریں۔
چیف جسٹس نے ملک میں بڑھتی آبادی کیس میں تجاویزطلب کرنے کے لیے 2 کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔