یہ اس لئے ممکن ہے کہ آج کل بننے والی گاڑیوں کی چابیوں سے وائرلیس سگنل نکلتے ہیں اورچوروں کوان سگنلز کو پکڑنے کا انتظار رہتا ہے۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ چور، بازار سے اصلی وائرلیس چابی خرید کراسے استعمال کرکے گاڑی کھولنے والے کوڈ کی نقل حاصل کرلیتے ہیں۔ اس کوڈ سے ہرگاڑی کو تو نہیں کھولا جا سکتا لیکن کچھ گاڑیوں کو کھولا جاسکتا ہے ۔
اس سے بچنے کا ایک آسان سا طریقہ ہے کہ آپ اپنی گاڑی کی چابی کو ایلومینیئم فوئل یا ایلومینیم کی پنّی میں لپیٹ کر رکھیں۔
سائبرسکیورٹی سے وابستہ کئی ماہرین متفق ہیں کہ اگرچہ یہ سکہ بند طریقہ نہیں لیکن بہت آسان اورسستا ضرور ہے۔
ایک اورطریقہ یہ ہے کہ چند ڈالرخرچ میں آن لائن دستیاب فیراڈے بیگ خرید لیں۔ اس بیک میں بھی وہی غیر موصل خصوصیت ہیں جو ایلومینیئم کی پٹی میں پائے جاتے ہیں اوریہ ان اطلاعات کے خلاف ڈھال کا کام دیتی ہے جو چوروں کو گاڑی چرانے کے چاہیئے ہوتی ہیں۔
یہ سارا کھیل برقی مقناطیسی لہروں کے ذریعے ایک سے دوسری جگہ اطلاعات پہنچانے کا ہے جیسے ریڈیو یا ٹیلی وژن کام کرتے ہیں۔
سائبرسکیورٹی ایجنسی گارڈنوکس سائبر ٹیکنالوجیز کے چیف ایگزیکٹو آفیسرموشے شیسل اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ تصور کیجیے کہ کسی تالے کو کھولنے کے لئے مستقل طورپرایک ریڈیائی آلہ اورایک خاص گیت درکار ہوں۔ اب اگر مجھے اس گیت کا پتہ چل جائے تو میں بھی وہ تالا کھول لوں گا۔
موشے شیسل جو ماضی میں اسرائیلی فضائیہ میں دفاعی میزائل نظام کی ترقی کے لئے کام کرتے رہے ہیں کہتے ہیں کہ ایلومینیئم کی پنی دراصل ایک ایسا سیل یا حصار بنا دیتی ہے جو کسی کو برقی مقناطیسی لہریں ریکارڈ کرنے سے روک دیتا ہے۔
بہت سے لوگوں کو21 ویں صدی میں یہ پرانا سا خیال لگے گا کہ ہمیں اب کارکی چابی کو ایلومینیئم کی پنی میں لپیٹنا پڑے گا۔
لیکن شیسل کہتے ہیں میرے پاس کوئی اعداد و شمار تو نہیں لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کے واقعات زیادہ سے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آلات آن لائن با آسانی خریدے جا سکتے ہیں جو کاریں چرانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اب تو یوٹیوب پراس کام کی تربیتی وڈیوزبھی مل جاتی ہیں۔
موشے شیسل کے بقول خودکاری کی صنعت ان مسائل سے اچھی طرح واقف ہے اورکسی بھی شخص کے لئے گاڑی اورچابی کے درمیان رابطے کے کوڈ نقل کرلینے کے طریقوں کو ناممکن بنانے پر غورکررہے ہیں۔
اس طرح کا جرم صرف کاروں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اتنی احتیاط برتتے ہیں کہ اپنے کریڈٹ کارڈ بھی غیرموصل بٹوے میں رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکی حکومت کے ادارے جب اپنے صارفین کو خاص دستاویزات دیتے ہیں تو انھیں حفاظتی خول میں رکھتے ہیں تاکہ ڈیٹا کسی کو منتقل بھی نہ ہو اورچوری بھی نہ ہوسکے۔ اس کی ایک مثال امریکا میں مستقل سکونت کا وہ کارڈ ہے جسے گرین کارڈ کہتے ہیں۔
کاروں کی چوری کی بات کریں تو یہ کام بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ آپ اس گھر کے سامنے آئیں جہاں گاڑی پارک کی ہوئی ہے۔ گھر کے اندر کمرے میں دس قدم کے فاصلے پر پتہ چلائیں کہ چابی پڑی کہاں ہے اور بس۔ اب کار چرانا مشکل نہیں۔
کلفرڈ نیومین ، جنوبی کیلیفورنیا کی یونیورسٹی سینٹر فارکمپیوٹر سسٹم سیفٹی کے ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے امریکی اخبار یو ایس اے ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک اوزاردستیاب ہیں ایسی چوریاں ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
جب کلفرڈ نے پہلے پہل یہ پڑھا کہ ان کی گاڑی کے چوری ہو جانے کا خطرہ موجود ہے تو انھوں نے رات کو اپنی گاڑی کی چابی کافی کے خالی ڈبے میں رکھنا شروع کردی۔
ماہرین بار بار یہ نصیحت کرتے ہیں کہ جب تک گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کرلیتیں بہتر یہی ہوگا کہ جہاں آپ روزانہ گاڑی کی چابی رکھتے ہیں وہیں پریا پھراپنی پتلون کی جیب میں یا میزپریا پھراپنے بیگ میں ایلومینیئم کی پنی میں لپیٹ کر رکھیں۔