اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ حکومت چاہے تو ڈیموں کی تعمیر کے لیے قائم فنڈ کو ٹیک اوور کرلے کیوں کہ ججوں کا کام نہیں کہ فنڈز اکٹھے کریں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کیس کی سماعت ہوئی۔
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جن ڈیموں پر تنازع نہیں ہے وہ ڈیم بنیں گے، ابھی انہی پر فوکس ہے تاہم کالا باغ ڈیم پر جب کبھی اتفاق ہوگا تو وہ بھی بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیمز کا ڈیزائن کیا ہوگا، ٹھیکہ کسے دینا ہے، یہ ہمارا کام نہیں اور ہم ریاست اور انتظامیہ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ الیکشن کی وجہ سے فنڈز میں پیسے نہیں آسکے، اگر حکومت فنڈز اکٹھے کرسکتی ہے تو کرے اور حکومت چاہے تو قائم فنڈز کو ٹیک اوور کرلے کیوں کہ عدالت کے ججز کا کام نہیں کہ فنڈز اکٹھے کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں ڈیمز فنڈز کی نگرانی عدالت کرے، کل درگاہ کی حاضری پر مجھے کسی نے 5 لاکھ کا چیک دیا، لوگ اب پانی کے ضیاع پر بھی توجہ دے رہے ہیں اور ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز دینا چاہتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال کا بھی کہنا تھا کہ ڈیمز بنانا عدالت کا کام نہیں، عدالت صرف حکومت کی مدد کر رہی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ڈیمز کے فنڈز سے رقم کیسے جاری ہوگی؟ کیوں کہ زلزلہ متاثرین کے فنڈز دوسرے منصوبوں میں استعمال ہوگئے تھے۔
چیف جسٹس نے نامور وکیل اعتزاز احسن سے مکالمہ کیا کہ کیا عدالت کا ڈیمز کے لیے فنڈز بنانے کا فیصلہ درست ہے؟ جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ڈیمز کے لیے فنڈز بنانے کا فیصلہ درست اور اچھا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 9 سال کی بچی نے اپنے اسکول کے بچوں سے 5300 روپے اکٹھے کرکے مجھے دیے، آنے والی نسلوں کو بچانے کیلئے کچھ کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیمز کی تعمیر کے لیے درکار رقم ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہے۔