کراچی: پولیس چیف مشتاق مہر کو سندھ کے منی لانڈرنگ کیس پر اثرانداز ہونے اور 2 اہم گواہوں کو پولیس گردی کے ذریعے منحرف کرنے کی کوشش کے الزام میں عدالتی حکم پر کی گئی تحقیقات کے بعد عہدے سے ہٹایا گیا۔ذرائع کے مطابق کراچی کے2 ایس ایس پیز کے خلاف بھی کارروائی اسی بنیاد پر عمل میں آئی۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق 40 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس کے سرے سندھ کی سابقہ اور متوقع آئندہ صوبائی حکومت کے مرکزی سیاسی کرداروں کی طرف نکلتے ہیں۔ اس مقدمے کی تفتیش کے سلسلے میں 2 اہم گواہ وعدہ معاف بننے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر نے مبینہ طور پر سندھ کے بعد بعض سیاسی کرداروں کے مبینہ ایما پر منی لانڈرنگ کے کیس کے دونوں گواہوں کو اپنے ماتحت پولیس افسران کے ذریعے ہراساں کرایا۔ انہی کے حکم پر کراچی شرقی کے علاقے گلستان جوہر اور کراچی جنوبی کے علاقے گزری میں دونوں گواہوں نورین اسلم اور علی حسن راشدی کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور پولیس نے روایتی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے انہیں انتہائی خوفزدہ کیا۔
معاملہ اعلیٰ عدالت میں گیا تو متاثرہ دونوں گواہوں نے پولیس پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے جس پر اعلیٰ عدلیہ نے انسپکٹر جنرل پولیس سندھ امجد سلیمی کو بھی طلب کیا اور ان سے اس سلسلے میں سخت باز پرس کی۔ سندھ پولیس سربراہ کی لاعلمی پر عدالت نے اس معاملے کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا۔ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان سے معاملے کی تحقیقات کرائی گئیں تو انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر، دونوں اضلاع کے ایس ایس پیز سمیت متعدد پولیس افسران کو ذمے دار قرار دیا۔
ذرائع کے مطابق اس پر ابتدائی طور پر دونوں تھانوں کے ایس ایچ اوز کو عہدوں سے ہٹانے کا حکم دیا گیا اور بدھ کی سہ پہر ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر اور دونوں ایس ایس پی ایسٹ نعمان صدیقی کا تبادلہ کردیا گیا جبکہ ایس ایس پی ساؤتھ عمر شاہد نے ازخود اپنے عہدے کا چارج چھوڑ دیا۔واضح رہے کہ مشتاق مہر ساڑھے تین سال سے زائد عرصے سے کراچی پولیس چیف کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔