کراچی: سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے ہیں کہ 12 مئی کو قتل کا طے شدہ منصوبہ تھا اور کوئی تنظیم اس کے پیچھے تھی۔
سندھ ہائی کورٹ میں سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات سے متعلق معاملے کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار اقبال کاظمی کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ بارہ مئی 2007کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا راستہ روکنے کیلئے دہشت گردی کی گئی، سابق صدر پرویز مشرف کے حکم پر ایم کیو ایم نے کراچی میں قتل عام کیا، درخواست میں سابق صدر پرویز مشرف ، بانی ایم کیو ایم، سابق مشیر داخلہ اور میئر کراچی وسیم اختر کو بھی فریق بناتے ہوئے سانحہ کی ازسرنوتحقیقات کی استدعا کی گئی ہے۔
دوران سماعت پولیس کی جانب سے کیس کی تفصیلات پیش کی گئیں، پولیس نے بتایاکہ کراچی کے مختلف تھانوں میں 12 مئی کیس کی 54 ایف آئی آر درج ہیں جس میں میئر کراچی وسیم اختر کے خلاف بھی بارہ مئی سانحہ کے مقدمات ہیں تاہم وہ اس کیس میں ضمانت پر رہا ہیں۔
جسٹس کے کے آغا نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ صرف ایک بڑی مچھلی پر ہاتھ ڈالا گیا؟ جس کے جواب میں پولیس نے بتایا کہ کچھ بڑے ملزمان مفرور ہیں ان کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کیلیے نادرا کو خط لکھ دیا ہے۔
جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ یہ طے شدہ منصوبہ تھا، کوئی تنظیم اس کے پیچھے تھی،لوگ تعینات کیے گئے تھے، عدالت نے وفاقی اور سندھ حکومت سے تحقیقاتی کمیشن کے اصولی قوائد طلب کرتے ہوئے عدالتی معاونین بیرسٹر فیصل صدیقی اور شہاب سرکی ایڈووکیٹ کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کی ہدایت کردی۔