قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق وزارت عظمیٰ کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے مقررہ وقت تک صرف 2 ممبران قومی اسمبلی عمران خان اورشہبازشریف کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔
دونوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد نامزدگی فارم درست قراردیتے ہوئے منظورکرلئے گئے۔
وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس کل شام ساڑھے 3 بجے شروع ہوگا جس کے دوران ایوان کی دو حصوں میں تقسیم سے قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔
ہرامیدوار کے لیے قومی اسمبلی ہال میں ایک ایک لابی مختص ہوگی، جو رکن جس امیدوار کو ووٹ دینا چاہے گا اس لابی میں چلا جائے گا جس کے بعد اراکین کی گنتی کے بعد اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار ملک کا نیا وزیراعظم ہوگا۔
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق 342 کے ایوان میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کسی بھی امیدوار کو سادہ اکثریت یعنی 172 ووٹ لینا ہوتے ہیں، اگر 172 کی اکثریت نہ ملے تو ایوان کے اکثریتی ارکان سے انتخاب ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے چناو کے لیے جیت عددی برتری رکھنے والی جماعت کی ہی ہوگی، ایوان زیریں میں موجودہ پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو 152 نشستیں پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہیں جبکہ سابقہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں81 نشستیں ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی 54 نشستیں، متحدہ مجلس عمل 15 ، متحدہ قومی مومنٹ7، بلوچستان عوامی پارٹی 5 ، بی این پی مینگل 4 ، پاکستان مسلم لیگ ق 3،جی ڈی اے 3،عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ 4 نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے پاس 152 نشستیں ہیں اوراسے متحدہ قومی مووومنٹ کی 7، پاکستان مسلم لیگ ق 3، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک ممبر کی حمایت حاصل ہے جس سے ان کی ایوان میں عددی قوت 176بنتی ہے۔
چارآزاد امیدواروں کا جھکاو بھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہوسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی وزارت عظمیٰ کے لیے 180 ارکان کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔
ہم خیال جماعتوں کو دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس81 نشستیں ہیں جبکہ انہیں پاکستان پیپلزپارٹی کے 54، متحدہ مجلس عمل کے 15 اورعوامی نیشنل پارٹی کے ایک ممبر کی سپورٹ حاصل ہے اوراپوزیشن کی عددی قوت 151 بنتی ہے جبکہ 4 آزاد امیدواروں کس سے ہاتھ ملائیں گے یہ واضح نہیں۔
وزارت عظمیٰ کیلئے قومی اسمبلی میں کسی بھی امیدوار کو آئین کےآرٹیکل 91 کی شق 4 کے تحت ایوان کے مجموعی ارکان کی سادہ اکثریت درکارہوتی ہے۔
342 کے ایوان میں 2 نشستوں پرانتخابات ملتوی ہوئے جبکہ 6 نشستیں پی ٹی آئی ، 2 نشستیں ق لیگ اورایک نشست ن لیگ کے حمزہ شہباز کی جانب سے ایک سے زائد نشستوں پرکامیابی کے باعث خالی ہوئی۔
ایک نشست این اے 215 پر پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن عدالت عظمی کی جانب سے جاری کرنے کا حکم دے دیا گیا مگراب تک ایسا ہوا نہیں اوریوں ایوان 330 کا ہوگا۔
وزیراعظم کے چناو کے روزاگر330 ممبران موجود ہوتے ہیں تواس حساب سے جیت کے لیے 166 ممبران کی سپورٹ چاہیئے ہوگی ۔ یعنی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے میں کوئی مشکل پیشں نہیں آئے گی اوراپوزیشن کے مقابلے میں ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔
قائد ایوان کے 2013 کے انتخابات کو دیکھا جائے تو اُس وقت میاں نواز شریف نے دو تہائی سے زائد یعنی 244 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ مخدوم امین فہیم نے 42 ووٹ اورجاوید ہاشمی نے 31 ووٹ حاصل کیے تھے۔
نوازشریف کی نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی 339 ووٹوں میں سے 221 ووٹ حاصل کر کے وزارت عظمیٰ کے منصف پر فائز ہوئے تھے۔