سابق بھارتی کرکٹر اور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو نے کہا ہے کہ میں خیر سگالی سفیر کے طور پر امن اور محبت کا پیغام لے کر پاکستان گیا تھا۔
بھارتی اخبار کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں نوجوت سنگھ سدھو نے خود پر تنقید کرنے والوں سے چھبتے ہوئے سوال پوچھ ڈالے۔
سدھو نے سوال اٹھایا کہ دورہ پاکستان پر واویلا کرنے والے اگر خیرسگالی نہیں چاہتے تو پاکستان میں بھارتی سفارتخانہ کیوں ہے؟ اگر ہم خیرسگالی نہیں چاہتے تو عید اور یوم آزادی پر مٹھائیوں کا تبادلہ کیوں کرتے ہیں؟ اوریہ بھی کہ اگر خیرسگالی نہیں چاہتے تو بھارتی ہائی کمشنر نے عمران خان کو بلا کیوں تحفے میں دیا؟
انہوں نے کہا کہ وہ خیرسگالی سفیر کے طور پر امن اور محبت کا پیغام لےکر دوست کی حیثیت سے پاکستان گئے تھے، جہاں بچے بڑے سب اُن سے نہایت گرمجوشی سے ملے اور کہا کہ سدھو صاحب! تاڈا سواگت اے (آپ کو خوش آمدید کہا جاتا ہے)۔
نوجوت سنگھ سدھو نے زور دیا کہ بھارت کو چاہیےکہ وہ پاکستان میں ان کے گرمجوشی سے اس استقبال کا فائدہ اٹھائے اور امن بات چیت آگے بڑھائے، تنقید کے بجائے پاکستان سے تجارت بڑھانا اور دونوں قوموں کا رشتہ مضبوط کرنا چاہیے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ د ورہ پاکستان سے میرا یقین پختہ ہوا ہےکہ پاک-بھارت تعلقات بہتر کیے جاسکتے ہیں، خصوصاً عمران خان کی جانب سے امن مذاکرات پر زور نے میری امیدیں اور بڑھا دی ہیں۔
نوجوت سنگھ سدھو نے بتایا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے ان سے کہا کہ وہ کرکٹر بننا چاہتے تھے ، جس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں جنرل بننا چاہتا تھا، جنرل باجوہ مجھ سے ملنے کے بعد جب جانے لگے تو کہا کہ ’’ہم امن چاہتے ہیں‘‘۔
سابق بھارتی کرکٹر نے کہا کہ کرتار پور صاحب میں بابا گرونانک نے زندگی کے آخری 18 برس گزارے تھے، جنرل باجوہ نے جب کرتار پورصاحب کا راستہ کھولنے کی بات کی تو میرے لیے جذباتی لمحہ تھا، بھارت کو چاہیے کہ کرتار پور صاحب کا راستہ کھلوانے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدام کرے، پنجابی کمیونٹی کے خواب پورے کیے جائیں۔