افغانستان میں قیام امن اور طالبان و امریکہ کے درمیان کسی سمجھوتے کے لیے آگے بڑھنے کے حوالے سے ابوظہبی مذاکرات کے بعد جمعرات کو بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ افغانستان پر امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے طالبان پر جنگ بندی کی امریکی پیشکش قبول کرنے کے لیے زور دیا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے جنگ بندی نہ کرنے پر لڑائی جاری رکھنے کی دھمکی بھی دی۔ تاہم روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی انس حقانی سمیت طالبان رہنمائوں کی رہائی کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ اگرچہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انس حقانی و دیگر کی رہائی کی تردید کی ہے۔
افغان طالبان کے ایک وفد اور امریکی حکام کے درمیان پیر سے بدھ تک ابو ظہبی میں مذاکرات ہوئے تھے۔ جس کے بعد جمعرات کو دن کے وقت ہی خبریں پھیل گئیں کہ انس حقانی اور ان کے کم ازکم ایک ساتھی کو رہا کیا جا رہا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ان دونوں افراد کو رہا کرنے کیلئے جیل سے نکال کر ایک ریسٹ ہائوس میں منتقل کردیا گیا۔ تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ انس حقانی کی رہائی کے حوالے سے اطلاعات درست نہیں ہیں۔ افغانستان میں بعض ذرائع کا کہنا تھا انس حقانی کے بدلے امریکی پروفیسر کو طالبان رہا کریں گے۔
اگرچہ قیدیوں کے تبادلے کی تصدیق نہیں ہوئی تاہم امن عمل کے حوالے سے جمعرات کے روز ایک سے زائد خبریں آئیں۔ افغانستان کے لیے امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے افغان خبر رساں ادارے آریانا نیوز اور ٹی وی چینل طلوع نیوز کو انٹرویو دیئے۔ زلمے خلیل زاد نے بتایا کہ ابو ظہبی مذاکرات میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تجویز پر طالبان کو تین ماہ جنگ بندی کی پیش کش کی گئی ہے اور اس دوران تمام امور پر مذاکرات کیے جائیں گے۔ تاہم طالبان وفد نے جنگ بندی کے معاملے پر مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے دھمکی دی کہ اگر طالبان نے جنگ بندی نہ کی تو امریکہ ان کے خلاف لڑائی اور افغان حکومت کی حمایت جاری رکھے گا۔
انہی انٹرویوز میں زلمے خلیل زاد نے اس بات پر سخت تنقید کی کہ ابو ظہبی میں طالبان نے کابل انتظامیہ کے وفد سے ملاقات نہیں کی تھی۔ طالبان کے اس انکار پر افغانستان کے مشیر سلامتی حمد اللہ نے بھی تنقید کی۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پر فیصلہ کوئی دوسرا ملک نہیں کر سکتا اور افغان عوام کی قربانیوں پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
افغان مشیر سلامتی نے بظاہر مذاکرات میں کابل انتظامیہ کے غیرمتعلق رہ جانے پر تحفظات ظاہر کیے اور زلمے خلیل زاد نے ان کے مؤقف کی تائید کی۔
تاہم اس حوالے سے ایک نمایاں پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ برسلز میں گفتگو کرتے ہوئے پیوٹن نے کہاکہ طالبان کا افغانستان کے بڑے علاقے پر کنٹرول ہے اور انہیں اہمیت دینا ہو گی۔ پیوٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال کے باعث انہیں تاجکستان میں اپنے فوجی اڈے پر نفری بڑھانا پڑی ہے۔
زلمے خلیل زاد کو بلواسطہ جواب دیتے ہوئے روسی صدر نے کہاکہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے۔