افغانستان سے 7 ہزار امریکی فوجیوں کا انخلا توقع سے کہیں پہلے ہونے کا امکان ہے اور ہوسکتا ہے آئندہ موسم گرما میں افغان طالبان اور امریکی فوجیوں کے درمیان لڑائی پیش نہ آئے۔
امریکی حکام کی جانب سے جمعہ کی صبح اچانک اعلان کیا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں تعینات اپنے 14 ہزار فوجیوں میں سے نصف یعنی 7 ہزار کو جلد ہی واپس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اگرچہ باضابطہ طور پر حکومت نے انخلا کا اعلان نہیں کیا تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے حکام نے وال اسٹریٹ جرنل، نیویارک ٹائمز سمیت امریکی اخبارات اور خبر رساں اداروں سے گفتگو میں بتایا کہ افغانستان میں متعین نصف فوجیوں کو واپس آنے کی تیاری کا کہہ دیا گیا ہے۔
انخلا کی خبر سب سے پہلے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے دی جس کا کہنا تھاکہ یہ فوجی ’’ہفتوں‘‘ کے اندر اندر واپس روانہ ہو جائیں گے۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں چند ماہ میں انخلا کا امکان ظاہر کیا۔ امریکہ کے سرکاری خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ آئندہ موسم گرما سے پہلے نصف امریکی فوجی افغانستان سے جا چکے ہوں گے۔
آئندہ برس گرما کی لڑائی نہیں
افغانستان میں ہربرس سردیوں میں برفباری کے باعث لڑائی کی شدت کم ہو جاتی ہے اور گرمیوں کے آغاز پر طالبان آپریشن کا اعلان کرتے ہیں۔ رواں برس کے آپریشن کو انہوں ںے الخندق کا نام دے رکھا ہے۔
لیکن اگر نصف امریکی فوجی آئندہ گرمیوں سے پہلے چلے گئے تو باقی تعداد 7ہزار ہوگی جو 2002 کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی کم ترین تعداد ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ آئندہ گرما میں لڑائی نہ ہو۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے علاوہ 8 ہزار نیٹو فوجی بھی تعینات ہیں۔ لیکن ان کا کردار بھی تربیتی ہے۔
اتنی جلدی امریکی انخلا پر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور سفارتکار حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کابل میں افغان حکام اور غیرملکی سفارتکاروں نے برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انخلا کا اعلان ان کے لیے بھی غیر متوقع تھا۔
افغان صدر اشرف غنی کے مشیر فضل فضلی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ افغانستان میں بیشتر امریکی فوجی تربیت اور مشاورت کے لیے تعینات ہیں لہٰذا ان کے انخلا سے فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم امریکی اخبارات کے مطابق امریکی فوجی دو مقاصد کے لیے تعینات ہیں، جن مٰں سے ایک ’’انسداد دہشت گردی آپریشنز‘‘ اور دوسرا تربیت و مشاورت کا ہے اور واپس بھیجے جانے والے فوجی ہر دو قسم کے شعبوں سے ہوں گے۔
امریکی فوجیوں کے انخلا کے واضح اعلان کا مطالبہ افغان طالبان نے ابوظہبی میں پیر سے بدھ تک ہونے والے تین روزہ ملاقات میں کیا تھا۔ افغانستان پر امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے جمعرات کو تصدیق کی تھی کہ مذاکرات امریکی انخلا کے معاملے پر مرکوز رہے اور طالبان کے مطالبے کے جواب میں امریکہ نے تین مہینے کے لیے جنگ بندی کی بات کی ہے۔
زلمے خلیل زاد نے طالبان پر دبائو رکھنے کیلئے یہ بھی کہا تھا کہ اگر انہوں نے جنگ بندی قبول نہ کی تو امریکہ کابل حکومت کی حمایت اور طالبان کے خلاف حملے جاری رکھے گا۔ زلمے خلیل زاد کا یہ موقف ٹرمپ انتظامیہ کے سابقہ بیانیے سے ہم آہنگ تھا۔ صدر ٹرمپ ماضی میں کہتے رہے ہیں کہ اوباما نے فوجی انخلا کا اعلان کرکے طالبان کے حوصلے بلند کیے تھے۔
تاہم اس دوران اچانک انخلا کے اعلان نے سب کو حیران کر دیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ کابل میں مغربی سفارتکاروں اور سینئر افغان حکام کو صبح اٹھتے ہی انخلا کے فیصلے کی خبر سن کر دھچکا لگا۔ اخبار کے مطابق افغان حکام کا کہنا ہے کہ انہیں انخلا کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا تھا جبکہ اب انہیں صدر ٹرمپ کی جانب سے عجلت میں مزید ایسے اقدامات کا خدشہ ہے۔
مذاکرات کے ایک اور دور کیلئے طالبان آمادہ
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ انخلا کے اعلان سے طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ طالبان نے اپنے ایک تازہ بیان میں عندیہ دے دیا ہے کہ وہ ابوظہبی میں مذاکرات کے ایک اور دور میں شرکت کرنے پر آمادہ ہیں۔ طالبان کے بیان میں امریکی انخلا کی اہمیت پر ایک بار پھر زور دیا گیا۔
طالبان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ابوظہبی میں پیر سے بدھ تک تین روزہ مذاکرات کے دوران ’’سب سے زیادہ اصرار افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلاء پر کیا گیا، اسی طرح شہریوں پر بمباریوں کے حوالے سے امارت اسلامیہ کے نمائندوں نے اجلاس کے شرکاء کو مصدقہ معلومات اور شواہد پیش کیے اور فی الفور ان کے خاتمے کا مطالبہ کیا، اجلاس میں قیدیوں کیساتھ انسانی سلوک اور ان کے رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا، جس پر غور کیا جائے گا۔ جنگ بندی، کابل انتظامیہ سے مذاکرات، عبوری حکومت کا قیام، الیکشن اور دیگر داخلی مسائل کے بارے میں امارت اسلامیہ کا مؤقف پہلے سے ہی واضح رہاہے،جن پر بات چیت نہیں ہوگی، اس لیے تمام مسائل کی جڑ اور بڑی رکاوٹ افغانستان کا قبضہ ہے اور اسے ختم کرنا چاہیے۔
طالبان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’آئندہ مذاکرات اور اجلاس کے حوالے فریقین اپنے اپنے قائدین کیساتھ مشورہ کریں گے۔
روس کا محتاط ردعمل
دوسری جانب روس نے انخلا کے امریکی انخلا پر محتاط ردعمل ظاہر کیاہے۔ روسی خبر رساں ادارے تاس کے مطابق صدارتی ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا تھا کہ چند برس پہلے بھی امریکہ نے انخلا کے اعلانات کیے تھے، ہمیں صبر کے ساتھ انتظار کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ حقیقت میں کیا ہو رہا ہے۔