بھارتی فوج نے اپنے ایک کرنل کا کورٹ مارشل ان الزامات پر شروع کردیا ہے کہ اس نے دہلی میں تعیناتی کے دوران ایک اور کرنل کی اہلیہ سے ناجائز تعلقات قائم کر لیے تھے۔
اس معاملے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملزم کے خلاف شکایت درج کرانے والے کرنل یعنی خاتون کے شوہر نے جب معاملہ اعلیٰ افسران کے سامنے رکھا تو الٹا اسے ہی اپنی بیوی سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا۔
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے سب سے پہلے اس معاملے پر رپورٹ شائع کی۔ بعد ازاں بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی نے بھی تفصیلی خبر دی ہے۔
تین برس سے جاری اس مقدمے کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والا کرنل 2015 میں دارالحکومت دہلی میں تعینات تھا جبکہ جب اس نے جموں کشمیر میں تعینات ایک کرنل کی اہلیہ سے ناجائز تعلقات قائم کرلیے۔ خاتون کے شوہر کرنل کو اس بات پر پتہ اس وقت چلا جب اس نے اپنی اہلیہ کے موبائل فون میں ساتھی افسر یعنی ملزم کی طرف سے بھیجے گئے نازیبا پیغامات دیکھے۔
واضح رہے کہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی افسران اپنے اہلخانہ کو بالعموم دہلی میں چھوڑ کر جاتے ہیں۔
متاثرہ شوہر کی شکایت پر کورٹ آف انکوائری تشکیل دی گئی جس نے ملزم کرنل کا موبائل فون تحویل میں لیا تو یہ انکشاف بھی ہوا کہ ملزم ساتھی افسر کی بیوی کے ساتھ واٹس ایپ پر نازیبا گفتگو بھی کرتا رہا ہے۔
انکوائری میں متاثرہ شوہر نے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنی رجمنٹ کے کرنل کمانڈنٹ کے سامنے یہ معاملہ رکھا تھا تاہم لیفٹیننٹ جنرل رینک کے مذکورہ سینئر افسر نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنی ناراض بیوی سے دور رہے۔ کورٹ آف انکوائری نے لکھا کہ بہت کوششوں کے باوجودہ مذکورہ لیفٹیننٹ جنرل اس کے سامنے بطور گواہ پیش نہیں ہوئے اور اعلیٰ افسران کے زبانی احکامات پر اس کے بغیر ہی رپورٹ تیار کردی گئی۔
شکایت کنندہ کرنل نے اپنے کرنل کمانڈنٹ سے مایوس ہونے کے بعد نیچے سے اوپر تک تمام اعلیٰ فوجی افسران اور وزیر دفاع تک کو خطوط لکھے تھے۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں افسران پہلے انفنڑی کی ایک ہی بٹالین میں تھے اور متاثرہ شوہر نے 1999 میں جب یونٹ جوائن کی تھی تو ملزم اسی یونٹ کا ایجوٹنٹ تھا۔ تاہم جب یہ واقعات پیش آئے اس وقت ملزم نیشنل کیڈٹ کور میں تعینات تھا۔
کورٹ آف انکوائری کی سفارشات پر دہلی کے جی او سی لیفٹیننٹ جنرل مستری نے آرمی ایکٹ کی دفعہ 45 کے تحت ملزم کے جنرل کورٹ مارشل کا حکم دے دیا ہے۔
بھارتی فوج میں اخلاقی گرائوٹ پر کورٹ مارشل کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے مرد فوجی افسران کی جانب سے خواتین افسران کو ہراساں کرنے کے معاملات سامنے آچکے ہیں۔
مارچ 2018 میں ایک خاتون کیپٹن کی شکایت پر ایک کرنل کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی تھی۔