سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر یہ سنسنی خیز الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے بشارالاسد حکومت کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعے شامی صدر کے مخالف 80 رہنما قتل کرا دیئے ہیں۔
شام میں بشارالاسد کے خلاف سنی گروپوں کی مزاحمت شروع ہونے کے بعد سعودی عرب اور شام نے ہی اس وقت ’’اپوزیشن‘‘ قرار دیئے گئے گروپوں کی پشت پناہی کی تھی اور شامی اپوزیشن کے سیاسی رہنمائوں کے اجلاس انہی دونوں ممالک میں ہوتے تھے۔
تاہم اب ترکی میں دائیں بازو کے بڑے اخبار ینی شفق( صبح نو) نے دعویٰ کیا ہے کہ ان اپوزیشن رہنمائوں میں سے 80 کو قتل کرانے میں سعودی عرب اور امارات کی حکومتیں معاون بنی ہیں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کے خلاف لڑائی کے دوران امارات اور سعودی عرب نے ان اپوزیشن کمانڈروں کو سٹیلائیٹ فونز فراہم کیے تھے۔ یہ فون اماراتی کمپنی ثریا (جسے بعض لوگ تھورایا بھی پڑھتے ہیں) اور برطانوی کمپنی اینمارسٹ کے تھے۔
اخبار کے مطابق چونکہ فوج سعودی عرب اور امارات نے دیئے تھے اس لیے ان کے پاسورڈز بھی یہ دونوں ممالک جانتے تھے اور بعد میں یہی پاس ورڈز بشارالاسد حکومت کو فراہم کردیئے گئے جس نے سٹیلائیٹ فونز کے ذریعے ان اپوزیشن کمانڈروں کی لوکیشن معلوم کی اور بمباری کر کے انہیں قتل کردیا۔
ینی شفق نے ان کمانڈروں کے لیے ’شہید‘ کا لفظ استعمال کیا۔
اخبار کے مطابق اس پورے معاملے کا انکشاف محمد الفتح بریگیڈ کے ایک کمانڈر محمود سلیمان نے اسے انٹرویو دیتے ہوئے کیا اور یہ ہلاکتیں 2012 سے 2014 کے درمیان ہوئیں۔
مارے گئے کمانڈروں میں سے کچھ کے نام زھران علوش، حسان عبود اور ابو خالد السوری ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا سفارتخانہ
ترک اخبار نے مزید لکھا کہ متحدہ عرب امارات نے گذشتہ ہفتے ہی دمشق میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولا ہے۔ اس کے فوراً بعد ٹوئٹر پر اماراتی وزیر خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش نے شامی اپوزیشن کو ’دہشت گرد عناصر‘ قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی عرب اور مصر کا اتحاد شام و ایران کے گٹھ جوڑ پر بھاری پڑے گا۔
شام میں 2011 سے خانہ جنگی جاری ہے۔ صدر بشارالاسد کی جانب سے مخالفین کوکچلنے کے لیے کی گئی بمباری اور مختلف گروپوں کی جانب سے ہونے والے حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد جاں بحق جبکہ ایک کروڑ سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔