افغانستان کی جانب سے پہلی بار کہا گیا ہے کہ افغان امن عمل بالخصوص افغان طالبان کے معاملے پر پاکستان کا رویہ ’’مثبت‘‘ ہے۔
یہ بات افغان صدر اشرف غنی کے نمائندہ خصوصی عمر داؤد زئی نے پاکستان کے دورے کے بعد کی ہے۔ اس دورے میں انہوں نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے تو ملاقات کی تاہم خاص بات یہ تھی کہ وہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے بھی ملے۔
دوسری جانب طالبان نے کہا ہے کہ امریکہ مختلف اسلامی ممالک سے ان پر دبائو ڈلوا رہا ہے۔
افـغان سرکاری نمائندوں کی پاکستان میں غیرحکومتی اور بالخصوص مذہبی قیادت سے ملاقاتیں بہت کم ہوئی ہیں۔ اس سے قبل افغان حکومت کے ایک وفد نے جے یو آئی(س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی تھی اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کریں۔
افغان طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات تو کر رہے ہیں لیکن ان میں کابل انتظامیہ کو شریک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اشرف غنی حکومت پاکستان پر اس سلسلے میں کردار ادا نہ کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔ ایسے الزامات وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے حالیہ دورہ کابل کے بعد بھی عائد کیے گئے۔
ذرائع کے مطابق عمر داؤد زئی نے بھی مولانا فضل الرحمان سے درخواست کی کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کریں۔
افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق دورے کے بعد عمر داؤد زئی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کردار مثبت ہے اور اس بات میں شبہ نہیں کہ پاکستانی حکومت، فوج اور اہم شخصیات کا مؤقف ایک ہی ہے۔
دباؤ نہ ڈالا جائے-طالبان
ادھر افغان طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ مختلف اسلامی ممالک سے ان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
طالبان نے کہا کہ ان نہ ڈالا جائے۔ کسی دوسرے ملک کو افغانستان میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔