پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شامل بجلی منصوبوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے 70 فیصد بجلی گھر کوئلے سے چلیں گے جس کے نتیجے میں پاکستان میں آلودگی بڑھے گی۔ یہ بحث بھی جاری ہے کہ چین اپنے یہاں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند کرکے انہیں پاکستان منتقل کررہا ہے اور اسی وجہ سے سی پیک میں زیادہ تناسب ان منصوبوں کا رکھا گیا ہے۔
تاہم اب قابل اعتماد ذرائع سے معلومات سامنے آنے کے بعد صورت حال کچھ واضح ہوئی ہے۔ جبکہ سی پیک کے تحت لگائے گئے بجلی گھروں کی بدولت پاکستان میں 30 ہزار سے زائد ملازمتیں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔
سی پیک منصوبوں کی تفصیلات عام دستیاب نہ ہونے کے باعث پاکستان میں لگائے جانے والے بجلی گھروں کے بارے میں بھی حقیقی اعدادوشمار سامنے نہیں آسکے تھے۔ اس سے پہلے یہی معلوم ہوسکا کہ 15 سے میں سے 6 بجلی گھر مکمل ہوچکے ہیں۔ اب سینیٹر مشاہد حسین سید کی قیادت میں قائم پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ نے مستند اعدادوشمار ایک انفوگرافک کی صورت میں جاری کیے ہیں۔
ان اعداوشمار کے مطابق سی پیک کے تحت بجلی گھروں پر 19 ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر 15 بجلی گھر بنیں گے جو 3 ہزار 240 میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔
اس میں سے 7 ہزار 560 میگاواٹ بجلی کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں سے پیدا ہوگی۔ کوئلے پر چلنے والے 7 بجلی گھر لگائے جا رہے ہیں جن میں سے چار ساہیوال، گوادر، پورٹ قاسم اور حب میں قائم ہوں گے۔
ایک بجلی گھر تھرکول کے بلاک ایک اور دو بجلی گھر تھر کول کے بلاک 2 میں قائم کیے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ تھر میں کوئلے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔
ان بجلی گھروں پر 13.6 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ یہ بجلی گھر 11 ہزار سے زائد ملازمتیں بھی دیں گے۔
اس کے علاوہ پانی سے بجلی پیدا کرنے والے (ہائیڈرو الیکٹرک) پلانٹ سوکی کیناری، مانسہرہ اور کروٹ آزاد کشمیر میں لگائے جا رہے ہیں۔
ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لیے سندھ کے علاقوں جھمپیر میں 3 اور گھارو میں 2 منصوبے لگائے جا رہے ہیں۔
ایک شمسی بجلی گھر بہاولپور میں لگایا جا رہا ہے جو 1000 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔
سی پیک کے بجلی منصوبوں میں سے کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کی تعداد 46 فیصد ہے جبکہ جو بجلی یہ پیدا کریں گے وہ سی پیک کے تحت لگائے گئے 15 بجلی گھروں کی مجموعی پیداوار کا 43 فیصد بنتی ہے۔
لہٰذا 70 فیصد بجلی گھر کوئلے پر چلنے کا دعویٰ درست نہیں لیکن کوئلے کے بجلی گھر آلودگی میں کچھ نہ کچھ اضافہ ضرور کریں گے۔
کیا چین کوئلے کے بجلی گھر پاکستان منتقل کر رہا ہے؟
دوسری جانب یہ دعویٰ بھی مکمل طور پر درست نہیں کہ چین اپنے یہاں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند کر رہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان میں ان پلانٹس کی تعمیر شروع ہوئی۔ محض تین ماہ پہلے ستمبر 2018 میں ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والی ایک مغربی ادارے coalswarm نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ چین میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کی تعمیر دوبارہ شروع کردی ہے اور بیک وقت سینکڑوں بجلی گھر بنائے جا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چین کی مرکزی حکومت نے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند کرانے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن چونکہ بجلی گھروں کی تعمیر کی اجازت دینے کا اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس ہے اس لیے مرکز کی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔ لہٰذا 2014 سے 2016 کے درمیان بڑی تعداد میں منصوبے منظور ہوئے جو اب تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
کول سوارم نے اپنی تحقیق کے لیے سٹیلائیٹ سے لی گئی تصاویر کا سہارا لیا۔ متعدد تصاویر 2018 میں لی گئیں جن میں بجلی گھر تعمیر ہوتے دکھائی دیئے۔
’’سونامی وارننگ‘‘ کے عنوان سے جاری اس رپورٹ میں کہا گیا کہ چین میں پہلے ہی 993 گیگاواٹ بجلی کوئلے سے پیدا ہو رہی ہے اور اس میں مزید 259 گیگاواٹ کا اضافہ کرنے کے لیے نئے پلانٹ لگائے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ چین نے اپنے پانچ سالہ پلان برائے 2016-2020 میں پابندی لگائی تھی کہ 1100 گیگاواٹ سے زیادہ بجلی کوئلے سے نہیں بنائی جائے گی لیکن موجودہ صورت حال میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار اس سے بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔
ان اعداوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا کہ چین میں بند ہونے والے بجلی گھر پاکستان میں لگائے جا رہے ہیں۔ چین کی جانب سے 259000 میگا واٹ بجلی کوئلے سے بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے اس کے مقابلے میں پاکستان میں 7560 میگاواٹ کے کوئلے سے پیداوار کچھ بھی نہیں۔
کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے کئی دیگر نقصانات ضرور ہیں لیکن کم ازکم ان کی مخالفت میں دیئے گئے دو بنیادی دلائل یعنی سی پیک کے 70 فیصد بجلی منصوبے کول پاورڈ ہونے اور اس کا سبب چین میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو ختم کیا جانا درست نہیں۔