لاہور میں عجائب گھر کے سامنے نصب کیا گیا ’شیطان کا مجسمہ‘ جمعہ کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ اس مجسمے کے حوالے سے خبروں کی اشاعت اور سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد میوزیم انتظامیہ نے اسے واپس پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کوبھجوا دیا۔
مجسمہ بنانے والے طالب علم سمیت کئی لوگوں نے اس پر تنقید بلاجواز قرار دی۔ لیکن عین اسی وقت جب لاہور میں اس مجسمے پر احتجاج جاری تھا۔ اسپین کے ایک شہر میں بھی ’مسکراتے شیطان‘ کا مجسمہ تیار کرلیا جس کی تنصیب سے پہلے ہی اس پر احتجاج شروع ہوگیا ہے۔
لاہور میں میوزیم کے سامنے مجسمے پر دو روز قبل سوشل میڈیا پر احتجاج دیکھنے میں آیا تھا جبکہ لاہور ہائیکورٹ میں اس پر سماعت بھی ہوئی تھی۔
لاہور میں ’شیطان کے مجمسے‘ سے پھیلتی وحشت
میوزیم انتظامیہ نے مجسمے کو پہلے ہی سبز پلاسٹک شیٹ سے ڈھانپ دیا تھا۔ جمعہ کی صبح اسے پنجاب یونیورسٹی کو بھجوا دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ شیطانی مجسمہ جامعہ پنجاب کی فیکیلٹی آف آرٹس کی تحویل میں رہتا ہے۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ مجسمہ لاہور میں منعقد ہونے والی فحش پارٹیوں میں کرایہ لے کر رکھا جاتا تھا۔
مجسمہ پنجاب یونیورسٹی سے فنون لطفیہ میں گریجویشن کرنے والے طالب علم ارتباط الحسن چیمہ نے اپنی ڈگری کے اختتامی مرحلے پر تھیسز کے طور پر بنایا تھا۔ ارتباط کے مطابق ان کے تھیسز کا عنوان ’وحشت‘ تھا اور اس مجسمے کا شیطان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انسان کے اندر موجود اس وحشی پن کی عکاسی کرتا ہے جو انسان کے اپنی اصلاح چھوڑنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے مجسمے پر ہونے والی تنقید کو مسترد کیا۔ میوزیم کے ترجمان کی طرح ارتباط کا بھی کہنا تھاکہ مجسمہ پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کے کام کی نمائش کے لیے میوزیم بھیجا گیا تھا۔
ارتباط نے یہ بھی بتایا کہ فائبر گلاس ے مجسمہ بنانے کے پراجیکٹ کے دوران یونیورسٹی کے اساتذہ نے اس کی بھرپور اعانت کی۔ جب کہ کسی اسٹوڈنٹ تنظیم نے بھی کسی قسم کا تعرض نہیں کیا۔ ارتباط کے مطابق اس کی تیاری میں پانچ ماہ لگے۔
مجسمہ ہٹائے جانے پر بھی کئی سوشل میڈیا صارفین تنقید کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فنون لطفیہ کو کسی قسم کی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔
اسپین میں بھی شیطان کے خلاف احتجاج
دوسری جانب اسپین کے دارالکومت میڈرڈ کے قریب واقعہ تاریخی شہر سگوبیا میں بھی شیطان کا ایک مجسمہ زیر بحث ہے۔ یہ مجسمہ سیاہ رنگ کے ایک شیطان کا ہے جو مسکرا رہا ہے اور اس کے سر پر دو چھوٹے سینگ نکلے ہوئے ہیں۔
مجسمہ اپنی سیلفی بھی لے رہا ہے۔ اس مجسمے کا صرف اوپری حصہ ہی مکمل ہے۔ نچلا دھڑ بد ہیت اور نامکمل دکھایا گیا ہے۔
پانچ فٹ کے کانسی کے مجمسے کو مجسمہ ساز خوزے انتونیو نے بنایا ہے۔ شہر کی انتظامیہ اسے پرانے علاقے میں ایک دیوار پر نصب کرنا چاہتی ہے لیکن منصوبہ سامنے آنے پر کیتھولک عیسائیوں نے احتجاج شروع کردیا۔
سرگوبیا کے کیتھولک مجسمے کو شہر سے باہر نکلوانا چاہتے ہیں اور انہوں نے ایک پٹیشن تیار کی ہے جس پر جمعہ تک ساڑھے پانچ ہزار افراد دستخط کر چکے تھے۔
سی این این کے مطابق شہریوں کا کہنا ہے کہ مجسمے میں شیطان کو انتہائی ’دوستانہ‘ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جو درست نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑی تعداد لوگ یہاں سیلفیاں بنوانے آئیں گے جس سے شہر متاثر ہوگا۔
سٹی کونسل مجسمے کے ذریعے سیاحوں کو متوجہ کرنا چاہتی ہے۔ مجسمے درحقیقت ایک کہانی کی توثیق کرتا ہے کہ سگوبیا شیطانوں نے ایک رات کے اندر اندر تعمیر کیا تھا۔
مجسمے کی تنصیب کے حق میں بھی ایک پٹیشن تیار کی گئی ہے جس پر 2 ہزار افراد دستخط کرچکے ہیں۔
ابتدا میں شہر کے ایک جج نے مجسمے کی تنصیب روک دی تھی لیکن بعد ازاں اجازت دے دی گئی۔ مجسمہ ساز خوزے انتونیو نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے جب مدرسے کے حق میں پٹیشن پر لوگوں کو دستخط کرنے کیلئے کہا تو اسے گالیاں سننا پڑیں۔
شیطان کے مجسموں کی کہانی لاہور یا سگوبیا تک محدود نہیں۔
خوزے انتونیو کے مطابق انہیں اس مجسمے کا خیال جرمنی کے شہر لیوبک میں آیا تھا جہاں شیطان کا ایک مجسمہ نصب ہے۔