ساہیوال میں جی ٹی روڈ پر اڈا قادرآباد کے قریب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی فائرنگ سے ایک 13 سالہ بچی، اس کی 40 سالہ والدہ سمیت 4 افراد جاں بحق ہوگئے۔ جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا۔ دو کم سن لڑکیاں بھی اس واقعے میں زندہ بچیں۔
پولیس پہلے ان بچوں کو قریبی پیٹرول پمپ پر چھوڑ گئی جہاں انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ پولیس نے ان کے والدین کو قتل کردیا ہے۔ بعد میں پولیس اہلکار بچوں کو پمپ سے لے گئے۔
پولیس نے ابتدائی بیان میں دعویٰ کیا کہ کار میں سوار اغوا کاروں کو مار دیا گیا جبکہ بچے بازیاب کرا لیے گئے ہیں۔ تاہم بعد میں سی ٹی ڈی کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ٹول پلازہ کے پاس سی ٹی ڈی ٹیم نے ایک کار اور موٹرسائیکل کو روکنے کی کوشش کی، جس پر کار میں سوار افراد نے پولیس ٹیم پر فائرنگ شروع کردی۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق فائرنگ سے دو خواتین سمیت 4 افراد ہلاک جبکہ 3 دہشت گرد فرار ہوگئے۔
ترجمان کے مطابق ہلاک ہونے والے ایک دہشت گرد کی شناخت ذیشان کے نام سے ہوئی، جو کالعدم تنظیم داعش کا مقامی سرغنہ تھا۔
سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق فرار دہشت گردوں میں شاہد جبار، عبدالرحمان اور اس کا ایک ساتھی شامل ہے جبکہ یہ کارروائی فیصل آباد میں 16 جنوری کو ہونے والے سی ٹی ڈی آپریشن کا حصہ تھی۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ جائے وقوع سے خودکش جیکٹس، دستی بم اور اسلحہ بھی برآمد ہوا۔
نجی ٹی وی کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے فائرنگ کا نشانہ بننے والی گاڑی لاہور کی جانب سے آرہی تھی، جسے ایلیٹ فورس کی گاڑی نے روکا اور فائرنگ کردی جبکہ گاڑی کے اندر سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔
عینی شاہدین کے مطابق مرنے والی خواتین کی عمریں 40 سال اور 13 برس کے لگ بھگ تھیں۔جبکہ زندہ بچنے والوں میں 2بچیاں اور ایک بچہ شامل ہے۔فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس نے کار میں سوار بچوں کو قریبی پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا، جہاں انہوں نے بتایا کہ ان کے والدین کو مار دیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہی سی ٹی ڈی پولیس بچوں کو اپنے ساتھ موبائل میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئی، جن میں سے ایک بچہ فائرنگ سے معمولی زخمی ہوا۔
عینی شاہدین نے مزید بتایا کہ گاڑی میں کپڑوں سے بھرے تین بیگ بھی موجود تھے، جنہیں پولیس اپنے ساتھ لے گئی۔
’پاپا نے کہا پیسے لے لو فائرنگ نہ کرو‘
زندہ بچ جانے والے لڑکے نے اسپتال میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا نام عمیر خلیل اور والد کا نام خلیل بتایا۔ عمر خلیل نے کہا کہ وہ لوگ اس کے چاچا رضوان کی شادی میں شرکت کے لیے بوریوالا گاؤں جارہے تھے، جبکہ والدین کو مارنے کے بعد پولیس انہیں ایک پٹرول پمپ پر چھوڑ کر چلی گئی، تاہم پھر واپس آئی اور اسپتال میں داخل کرایا۔
عمر خلیل نے کہا کہ میرے پاپا نے پولیس والوں کی بہت منتیں کیں اور کہا کہ بے شک ہماری تلاشی لے لیں، ہمارے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے، پیسے لے لو ، فائرنگ نہ کرو لیکن انہوں نے گولیاں مار دیں۔
عمر خلیل کا کہنا تھا کہ مرنے والوں میں اس کی والدہ نبیلہ، 13 سالہ بہن اریبہ، والد خلیل اور والد کے ایک دوست شامل ہیں جنہیں سب مولوی صاحب کہتے ہیں۔
عمر کو کولہے پر گولی لگی ہے۔
https://twitter.com/Kamran7871/status/1086574943029116928
’تین گاڑیوں میں شادی میں جا رہے تھے‘
پولیس مقابلے میں مارے جانے والے شخص خلیل کے بھائی جلیل نے کہا ہے کہ ہم غریب ہیں اور اپناکاروبار کرتے ہیں، ہمارا کسی دہشتگرد سے کوئی تعلق نہیں ،میرے بھائی خلیل کی چونگی امرسدھومیں پرچون کی دکان ہے۔ محمد جلیل نے کہا کہ ہم 3 گاڑیوں پر شادی میں شرکت کیلئے لاہورجارہے تھے،ہماری ایک گاڑی بورے والاپہنچ گئی تھی،بھائی کوکال کی تووہ اوکاڑہ بائی پاس کے قریب پہنچ گیاتھا۔
محمد جلیل نے کہا کہ میری گاڑی پیچھے تھی،ساہیوال پہنچ کرکال کی توموبائل فون بندتھا،ان کا کہناتھا کہ میں نے ون فائیوپرکال کی توپولیس نے کہاواقعہ کاعلم نہیں۔
’انسانی ڈھال‘
وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے انسانی ڈھال استعمال کی ہے۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بتایاکہ آئی ئی جی پنجاب نےآرپی اوسےواقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے،ایک گھنٹےمیں واقعےکی صورتحال واضح ہوجائےگی۔ فیاض الحسن کا کہناتھاکہ انہیں آر پی او نے بتایا کہ ملزمان کاتعلق کالعدم تنظیم سےتھا،آج کا واقعہ 16جنوری کے سی ٹی ڈی آپریشن کا حصہ ہے، وزیراعلیٰ پنجاب نےفون کرکےتحقیقات کاحکم دیا، واقعہ میں کسی کی غفلت ثابت ہوئی تواسکےخلاف ایکشن لیں گے۔
وزیراعظم کا نوٹس- وزیراعلیٰ کا بات کرنے اسے گریز
وزیراعظم عمران خان نے ساہیوال میں کارپر فائرنگ کے واقعے کا نوٹس لیا اور پنجاب حکومت سےواقعے کی رپورٹ طلب کرلی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے پر بات کرنے سے انکار کردیا۔
واقعے کے کچھ ہی دیر بعد صحافیوں نے جب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے اس سوال کیا تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔