پنجاب حکومت نے سانحہ ساہیوال میں پر ایڈیشنل آئی جی آپریشنز اور سی ٹی ٹی ڈی کے 4 افسران کو عہدوں سے ہٹانے کا اعلان کیا ہے لیکن آئی جی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔
صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے پریس کانفرنسں کرتے ہوئے ساہیوال میں پولیس کے ’آپریشن‘ کو سو فیصد درست قرار دیا ہے۔
راجہ بشارت نے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں خلیل اوراس کے اہل خانہ کے قتل کا ذمے دار سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو ٹھہرایا گیا ہے جب کہ ذیشان کے کردار کو مشکو ک قرار دیا گیا ہے جس کی مزید تحقیقات کی جائیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب کو عہدے سے ہٹا کر وفاق رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی پنجاب، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کو بھی عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ایس ایس پی سی ٹی ڈی اور ڈی ایس پی سی ٹی ڈی ساہیوال کو فوری طور پر معطل کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قتل میں ملوث پانچ سی ٹی ڈی اہلکاروں کا چالان جلد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے ساہیوال آپریشن کے صحیح یا غلط ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘آپریشن 100 فیصد درست تھا اور اس میں مارا جانے والا ذیشان گناہ گار تھا، بدھ کو میڈیا کے لیے ان کیمرا بریفنگ منعقد کر رہے ہیں جس میں واقعے اور تحقیقات کے تمام معاملات سامنے لائے جائیں گے۔
اس سے پہلے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کردی گئی۔
16 کے بجائے 5 اہلکاروں کیخلاف کارروائی
وزیر قانون کی پریس کانفرنس سے پہلے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں سی ٹی ڈی کے 6 اہلکاروں کو براہ رست ملوث ہونے کا ذمے دار جبکہ 4 اہلکاروں کوجرم میں معاونت کرنے کا مرتکب ٹھرایا گیا ہے۔
جے آئی ٹی سربراہ اعجاز شاہ نے بھی ساہیوال میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 6 اہلکار ہی زیر حراست ہیں۔ انہوں نے دیگر 10 اہلکاروں کے بارے میں نہیں بتایا۔
یاد رہے کہ مقتولین کے ورثا نے 16 سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔ اور دو روز تک حکومت کے یہی بیانات تھے کہ 16 اہلکار حراست میں ہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ
سانحہ ساہیوال کی تحقیقات پر جےآئی ٹی کو 72 گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا جو منگل کی شام 5 بجے ختم ہوگیا۔ پانچ بجتے ہی لاہور میں وزیراعلی پنجاب کی زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس شروع ہوگیا جس میں سینئرصوبائی وزیرعلیم خان،وزیر قانون راجہ بشارت،چیف سیکریٹری پپنجاب،آئی جی پولیس،جے آئی ٹی ارکان اورمتعلقہ ایجنسیوں کے حکام شریک ہوئے۔
اجلاس میں سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کر دی جس کے مندرجات پرزیر غور آئے۔
ذرائع نے روزنامہ امت کوبتایاہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ان تین گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کرلیے ہیں جنہوں نے پیر کو جے آئی ٹی سے رابطہ کیا تھا۔ ان گواہوں نے جے آئی ٹی کوواقعے تک پہنچنے میں مدد فراہم کی ہے۔
دوموبائل فون وڈیوفوٹیجز بھی جے آئی ٹی کے پاس جمع کرائی گئی ہیں جن کا فرانزک جائزہ لیاجا رہا ہے اس کے بعد انہیں بھی رپورٹ کاحصہ بنایاجائے گا۔
ساہیوال میں بچوں کو گاڑی سے باہر نکال کر فائرنگ کی گئی
ذرائع نے جے آئی ٹی رپورٹ کے بارے میں بتایاہے کہ مشترکہ تحققاتی ٹیم نے اپنی سفارشات بھی مرتب کرلی ہیں ۔اس رپورٹ میں مقتولین کے پاس کار میں موجودسامان کی فہرست بھی شامل کی گئی ہے جس میں کارسواروں کے پاس سونے کے زیورات اور کپڑوں کے ساتھ بعض اہم معلومات بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کا سب سے اہم نکتہ ذمہ داری کے تعین سے متعلق ہے۔ رپورٹ میں سی ٹی ڈی کے 6اہلکاروں کو براہ راست ذمہ دار جبکہ4 کو جرم میں معاون قرار دیا گیا ہے اور باقی اہلکاروں کے حوالے سے بھی محکمانہ کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
دیگر ذرائع کے مطابق تفتیش کے لیے فرانزک سائنس ایجنسی کو ادھوری چیزیں بھیجی گئیں۔ ایجنسی کو ایس ایم جی سے چلی ہوئی 45 گولیوں کے خول بھیجے گئے جب کہ ایس ایم جی سے چلی ہوئی اور پوسٹ مارٹم سے ملی گولیاں نہیں دی گئیں۔
ذرائع نے بتایا کہ فرانزک ایجنسی کو 9 ایم ایم کی 5 گولیاں بھی بھیجی گئیں، ایس ایم جی نہ بھیجنے کی وجہ سے تجزیہ کرنا مشکل ہے، ایس ایم جی کے بھیجے گئے 45 خول کا تجزیہ کرکے صرف محفوظ کرسکتے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی اور پولیس کے استعمال میں ایس ایم جی ہی ہوتی ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کا امکان
ابتدائی رپورٹ پیش کیے جانے سے قبل وقت پر رپورٹ نہ آنے کی خبریں پھیل گئیں۔ ساہیوال میں گفتگو کرتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) کے سربراہ سید اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے واقعے کی حتمی رپورٹ منگل کی شام 5 بجے تک دینا ممکن نہیں۔ تاہم وزیراعلیٰ ہائوس سے خبر آئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ساہیوال سانحے میں تحقیقات کے لئے مزید وقت دینے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ جے آئی ٹی ٹیم 5 بجے تک حتمی رپورٹ پیش کرے، پوری قوم تحقیقاتی ٹیم کی جانب دیکھ رہی ہے۔
شام کو بھی جے آئی ٹی نے ابتدائی رپورٹ ہی پیش کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ادھوری رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے اس سے پہلے ہی ایک بیان میں کہہ دیا تھا اگر سانحہ ساہیوال پرجے آئی رپورٹ سے وزیراعلیٰ مطمئن نہ ہوئے تو جوڈیشل کمیشن بنایا جا سکتاہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں بھی جوڈیشل کمیشن کے لے درخواست دائر کی گئی ہے۔
وکیل میاں آصف محمود کی طرف سے سانحے کی ’’غیرجانبدارانہ‘‘ تحقیقات کے لیے پٹیشن دائر کی گئی ہے جس میں عدالت سے جوڈیشل تحقیقات کی استدعا کی گئی۔
عدالت نے منگل کو اس پر سماعت کرتے ہوئے آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو 24 جنوری کو طلب کرلیا ہے۔
عینی شاہدین کے بیانات
ایڈیشنل آئی جی اعجاز شاہ کی سربراہی میں منگل کو جے آئی ٹی ٹیم نے ساہیوال میں جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور 4 عینی شاہدین کے بیان قلم بند کئے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس کی گاڑی نے پہلے فائرنگ کی پھر بچوں کو نکالنے کے بعد مزید اندھا دھند فائرنگ کی، پھر پولیس کی گاڑی موقع سے فرار ہوگئی، اس کے بعد ایلیٹ فورس کی ایک اور گاڑی نے آکر لاشوں کو آلٹو کار سے نکال کر پولیس کی گاڑی میں ڈالا اور لاشوں کو لے کر چلے گئے۔
ایڈیشنل آئی جی نے عینی شاہدین سے پوچھا کہ پہلا فائر کس گاڑی سے کیا گیا؟ عینی شاہدین نے جواب دیا کہ پہلا فائر پولیس کی گاڑی سے کیا گیا، مرنے والوں کی گاڑی سے کوئی فائرنگ نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی اسلحہ اور بارود نکلا۔
اعجاز شاہ نے ساہیوال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑا سانحہ ہے، لیکن تحقیقات کے لیے ہمیں کم وقت دیا گیا ہے، آج ہم جو رپورٹ پیش کریں گے اسے ہم حتمی رپورٹ نہیں کہیں گے، کوشش کر رہے ہیں کہ آج رپورٹ مرتب کرلیں اور تکنیکی بنیادوں پر کام جاری ہے۔