ساہیوال میں خلیل، ان کی اہلیہ اور بچی کے ساتھ مارے گئے ڈرائیور ذیشان جاوید کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے پنجاب حکومت نے بدھ کے روز صحافیوں کو ایک بریفنگ دی ہے جس میں مقتول ذیشان کی 15 جنوری کومارے گئے دہشت گرد عثمان کے ساتھ ایک سیلفی دکھائی جبکہ ذیشان اور عدیل حفیظ نامی شخص کے درمیان مبینہ طور پر فون پر ہونے والی گفتگو بھی سنائی گئی۔
ذیشان کے خلاف اس سے قبل منگل کو سیکورٹی حکام نے بھی وزیراعلیٰ ہائوس میں صحافیوں کو غیررسمی بریفنگ میں واقعے کے پس منظر سے آگاہ کیا تھا۔ جس میں بتایا گیا کہ تھا کہ عدیل حفیظ اور عثمان دونوں 15 جولائی کو فیصل آباد میں ایک آپریشن میں مارے گئے تھے۔
لاہور میں بدھ کو سانحہ ساہیوال پر بریفنگ ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ پنجاب فضیل اصغر نے دی۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گرد عدیل حفیط کی فیصل آباد آپریشن میں ہلاکت کے بعد سم ملی تھی جس کے بعدیہ تمام تر معاملہ آگے بڑھا تھا۔ عدیل کی سم میں ذیشان کے علاقے کی لوکیشن آئی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ساڑھے نو بجے ذیشان کی کار نے مانگا کراس کیا اس کے بعد یہ آپریشن کیا گیا۔
سیکریٹری داخلہ نے کہاکہ سارے آپریشن انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہوتے ہیں، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپریشن کا طریقہ کار غلط تھا۔ فضیل اصغر نے یہ بھی کہا کہ ذیشان کا پہلے کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا تاہم انہوں نے کہاکہ عدیل حفیظ،عثمان اور ذیشان تینوں داعش کے دہشت گرد گروپ کا حصہ تھے۔ پنجاب میں داعش چھوٹے چھوٹے گروپوں سے کام کراتی ہے اس کا کوئی باقاعدہ ہیڈکوارٹرز نہٰیں۔
نجی ٹی وی کے مطابق فضیل اصغر کا کہناتھا کہ گاڑی میں 4 دہشت گرد موجود ہونے کی اطلاع تھی لیکن ایک نکلا۔ ٹی وی کے مطابق جب ان سے پوچھا گیاکہ گولی کس کے کہنے پر چلائی گئی تو وہ خاموش رہے۔
سیلفی کی کہانی
فضیل اصغر نے کہا کہ ذیشان کے موبائل سے ایک سیلفی برآمد ہوئی جس میں وہ 15 جنوری کو مارے گئے دہشت گرد عثمان کے ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن کی بنیاد یہی سیلفی تھی۔
بریفنگ میں کیمرے موجود نہٰں تھے تاہم فضیل اصغر کا یہ جملہ کہ آپریشن کی ’’بنیاد‘‘ ذیشان کے موبائل سے ملنے والی سیلفی تھی کئی ٹی وی چینلز نے رپورٹ کیا ہے۔
اسی جملے سے پوری بریفنگ پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں کہ اگر سیلفی آپریشن کی بنیاد تو یہ سیلفی تو ذیشان کے مارے جانے کے بعد اس کے موبائل سے برآمد ہوئی۔ یہ کیسا آپریشن ہے جو ’’دہشت گرد‘‘ کے مارے جانے کے بعد اس کے قبضے سے ملنے والے ثبوت کی ’’بنیاد‘‘ پر کیا گیا۔
بریفنگ میں یہ سیلفی دکھائی گئی جو ایک موبائل میں موجود تھی۔ اس موبائل کی سیلفی سمیت تصویر کسی اور کیمرے سے لی گئی تھی۔
اس سیلفی میں بائیں جانب سامنے ذیشان بیٹھا ہے جبکہ اس کے پیچھے حکام کے بقول 15 جنوری کو مارا گیا دہشت گرد عثمان بیٹھا ہے۔ دونوں کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔
حکام کے مطابق عثمان سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی گیلانی کے اغوا میں ملوث تھا۔
’موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ کا دعویٰ جھوٹا نکلا
ہفتہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب قادراڈا کے مقام پر ذیشان سمیت چار افراد کے قتل کے بعد سی ٹی ڈی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ مرنے والوں کے ساتھ موٹرسائیکل سوار دہشت گرد بھی تھے جنہوں نے پولیس پر فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔ اسی ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا گیا کہ کار میں موجود افراد اپنے ہی ساتھی دہشت گردوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ لاہور میں سی ٹی ڈی تھانے میں جو مقدمہ سی ٹی ڈی نے خود درج کیا اس میں بھی یہی دعویٰ موجود ہے۔
تاہم فضیل اصغر نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ سی ٹی دی کی پریس ریلیز میں موٹرسائیکل سواروں کی خبر غلط تھی۔ فضیل اصغر نے یہ بھی کہا کہ میری نظر میں کار میں کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سی ٹی ڈی نے کار سے دستی بم اور خودکش جیکٹ برآمد ہونے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ فارنسک سائنس ایجنسی کو بھی 9 ایم ایم پستول کی بغیر چلی ہوئی گولیاں بھیجی گئی تھیں۔
’دہشت گرد سے خریدی گئی گاڑی‘
بعض حکام نے منگل کو وزیراعلیٰ ہائوس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ مقتول ذیشان کے پاس جو آلٹو کار تھی اور جس پر فائرنگ ہوئی وہ فیصل آباد میں مارے گئے دہشت گرد عدیل حفیظ نے ثاقب نامی شخص سے خریدی تھی۔ اس سلسلے میں اسٹامپ پیپرز بھی بعض صحافیوں کو فراہم کیے گئے تھے۔
بدھ کو بریفنگ کے دوران ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ 15 جنوری کو فیصل آباد میں ہونے والے مقابلے میں آلٹوکار سامنے نہیں آئی تھی۔
’دو گھنٹے طویل فون کالز میں فدائی بننے کی خواہش‘
بریفنگ کے دوران صحافیوں کو ذیشان اور دہشت گردوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے ٹکڑے بھی سنائے گئے۔
اس سے پہلے سیکورٹی حکام کا کہنا تھا کہ ذیشان دو دو گھنٹے تک 15 جنوری کو مارے گئے دہشت گردوں سے گفتگو کرتا تھا اور اس نے فدائی بننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
5 بڑے سوالات باقی
- جہاں قتل کے بعد ملنے والی سیلفی کی بنیاد پر آپریشن کے بیان نے بریفنگ کو مشکوک بنایا ہے وہیں کئی دیگر ایسے سوالات موجود ہیں جن کا جواب نہیں ملا سکا۔
- اگر دہشت گرد عثمان کے ساتھ ذیشان کی سیلفی موجود تھی تو اس کا اعلان پہلے ہی دن کیوں نہیں کیا گیا؟ جب اس کارروائی پر سی ٹی ڈی سخت تنقید کا ہدف بن چکی تھی اور جب سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات جاری کیے جا رہے تھے۔
- واقعے کے تین دن بعد سیلفی سامنے لانے سے کیا یہ تاثر پیدا نہیں ہوگا کہ یہ سیلفی تخلیق کی گئی؟ عام طور پر ایسے شواہد فورا سامنے لائے جاتے ہیں۔
- ماضی میں دہشت گردوں کی فون کالز کی جو ریکارڈنگز سامنے آئی ہیں وہ بالعموم مختصر تھیں۔ بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ ذیشان دوسرے دہشت گردوں سے طویل گفتگو کرتا تھا اور اس کی ریکارڈنگز موجود ہیں (اور اگر انہی ریکارڈنگز کی بنیاد پر اس کے خلاف آپریشن کیا گیا) تو سی ٹی ڈی کو اس کی گاڑی کا پیچھا کرنے کی کیا ضرورت، کیا اسے کہیں بھی محفوظ طریقے سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا؟
- اگر یہ سارا واقعہ محض غلط فہمی میں ہوا یا غلط معلومات کی بنیاد پر ہوا تو غلطی کا اعتراف کیوں نہیں کیا جارہا، ذیشان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟