افغان طالبان نے امریکا سے امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کردیا
افغان طالبان نے امریکا سے امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کردیا

امریکہ- طالبان کے بیانات کی مایوسی قطر مذاکرات پر چھا گئی

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پیر سے  طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات ہفتہ کو اختتام پذیر ہوئے جس کے اختتام پر پہلے اتفاق رائے اور مسودہ تیار ہونے کی امید افزا خبریں آئیں پھر دونوں جانب سے آنے والے بیانات نے اس امید پر پانی پھیر دیا۔

ہفتہ کو پہلے یہ اطلاعات آئیں کہ مسودہ تیار ہوگیا ہے۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ معاہدے میں یہ نکتہ شامل ہے کہ انخلا کا اعلان ہونے کے  18 ماہ کے اندر اندر امریکی افواج افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائیں گی۔

جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے، افغان رہنمائوں پر عالمی سفری پابندیوں کے خاتمے کے نکات بھی معاہدے میں شامل ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں لیکن کوئی اعلامیہ جاری نہ ہوا۔

بعد میں امریکہ اور طالبان کے ترجمانوں نے الگ الگ بیانات میں پیشرفت کی تصدیق کی تاہم یہ بھی بتایا کہ بہت کچھ طے ہونا باقی ہے۔

طالبان اب بھی  کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر رہے ہیں اور امریکی انخلا کے واضح اعلان تک جنگ بندی کرنے کو بھی تیار نہیں۔ یہی بڑی رکاوٹ ہے۔

افغانستان پر امریکی صدر کے ایلچی زلمے خلیل زاد نے چھ روزہ مذاکرات کے اختتام پر ٹوئیٹس میں پیشرفت کی تصدیق کی تاہم یہ بھی کہا کہ ’اس وقت تک کچھ بھی طے شدہ نہیں ہے جب تک سب کچھ طے نہیں ہوجاتا اور ’سب کچھ‘ میں بین الافغان مذاکرات اور جامع جنگ بندی شامل ہونا چاہیئں۔‘‘

اس کے ساتھ ہی طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں امریکی انخلا سمیت اہم امور پر پیشرفت ہوئی ہے لیکن کئی باتیں طے ہونا باقی ہیں جو مذاکرات کے آئندہ دور میں طے کی جائیں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ طالبان کے کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات یا جنگ بندی پر اتفاق کی خبریں غلط ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ جب تک امریکی انخلا کا اعلان نہیں ہوتا کسی دوسرے معاملے پر پیشرفت ممکن نہیں۔

ان دونوں بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان امن پر معاہدہ فوری طور پر نہیں ہو رہا بلکہ مزید وقت درکار ہوگا۔

اس سے پہلے ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا تھا کہ  طالبان اپنے اس مؤقف پرتو قائم ہیں کہ وہ کابل حکومت سے بات چیت نہیں کریں گے تاہم ’’بین الاافغان مذاکرات‘‘ مذاکرات کے لیے آمادہ ہوگئے ہیں اور بین الافغان مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ  افغانستان کے مختلف فریقین میں ملک کے مستقبل پر بات چیت ہوگی۔ اس بات چیت میں حکمت یار کی حزب اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتیں، افغانستان کی موجودہ حکومت، سابق صدر کرزئی سمیت تمام رہنما شریک ہوں گے۔

طالبان کے بیان سے واضح نہیں کہ وہ کسی بھی طرح کابل انتظامیہ کو مذاکرات میں شریک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں یا پھر تمام فریقین کے مذاکرات میں اشرف غنی حکومت کو بھی ایک فریق مان لیں گے۔

بظاہر امریکہ کی جانب سے انخلا کے نظام الاوقات کے اعلان تک کوئی بھی نقطہ طے نہیں ہوپا رہا جبکہ کابل انتظامیہ اور امریکہ چاہتے ہیں کہ ساتھ ساتھ افغانستان کی مستقبل کی عبوری حکومت کا ڈھانچہ بھی سامنے آجائے۔

ہفتہ کوافغان انٹیلی جنس چیف معصوم ستنکزئی بھی قطر پہنچے اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے طالبان سے ملاقات کی ہے۔

ذرائع کے مطابق قطر مذاکرات میں جواتفاق ہوا ہے اس کی دو بنیادی شقیں 18 ماہ مٰیں امریکی انخلا اور افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی ہیں۔

روزنامہ ’’امت‘‘ نے 24 جنوری کو خبر دی تھی کہ افغان طالبان امریکہ کو بتدریج انخلا کیلئے  جولائی 2020 تک امریکی فوج تک وقت دینے کو تیار ہیں۔

اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان نے افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

قطر مذاکرات کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ زلمے خلیل زاد اور معصوم ستنکزئی کابل روانہ ہوگئے ہیں جہاں وہ اشرف غنی کی حکومت کو اعتماد میں لیں گے۔

طالبان- امریکہ مذاکرات سے پاکستان باہر نہیں- پاک فوج

فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ بات چیت کا آئندہ دور کب ہوگا۔

کئی ہفتے سے یہ اطلاعات زیر گردش ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سالانہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں معاہدے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

قطر مذاکرات میں افغانستان کے ابتدا میں 8 نمائندے شریک تھے تاہم بعد ازاں 10 طالبان رہنمائوں کو بگرام بیس سے رہا کرکے دوحہ پہنچایا گیا جس کے بعد ان کی تعداد 18 ہوگئی۔

امریکہ کی جانب سے مذاکرات کی قیادت صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل نے کی جبکہ معاون وزیر خارجہ لزا کرٹس بھی مذاکرات میں شریک تھیں۔ اس کے علاوہ محکمہ دفاع اور محکمہ خزانہ کے حکام بھی شریک ہوئے۔