افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور آئندہ ماہ یعنی فروری میں ہوگا۔
دوحہ میں دونوں فریقین کے درمیان 6 روزہ مذاکرات ہفتہ کو اختتام پذیر ہوئے تھے۔ مذاکرات کے اختتام پر پہلے یہ خبریں آئی تھیں کہ ایک مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے جس کے تحت معاہدے کا اعلان ہونے کے 18 ماہ میں امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی جبکہ طالبان بھی جنگ بندی پر تیار ہو گئے ہیں۔
تاہم چند گھنٹے بعد امریکی اور طالبان کی جانب سے آنے والے بیانات نے فوری جنگ بندی یا انخلا کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
امریکہ- طالبان کے بیانات کی مایوسی قطر مذاکرات پر چھا گئی
طالبان- امریکہ مذاکرات سے پاکستان باہر نہیں- پاک فوج
البتہ امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد اور طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد دونوں نے ہی اپنے اپنے بیانات میں پیشرفت کی تصدیق کی تھی۔
افغانستان سے ملنے والی تازہ اطلاعات کے مطابق اب فریقین نے 25 فروری کو مذاکرات کے پانچویں دور پر اتفاق کیا ہے یہ پانچواں دور بھی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہی ہوگا۔
توقع ہے کہ ہفتہ کو ختم ہونے والے چوتھے دور میں جن امور پر پیشرفت ہوئی ہے آئندہ ماہ پانچویں دور میں اس کی تفصیلات طے کی جائیں گی۔
ہفتہ کو طالبان ترجمان نے کہا تھا کہ امریکی انخلا کے اعلان تک کسی اور معاملے پر پیشرفت ممکن نہیں کی۔ ترجمان نے جنگ بندی یا کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر اتفاق رائے کی تردید کی تھی۔
طالبان ترجمان نے اتوار کو ایک اورمختصر بیان ٹوئٹر پر جاری کیا جس میں مزید وضاحت کی گئی کہ 18 ماہ میں امریکی انخلا کا کوئی سمجھوتہ طے نہیں پایا۔
مذاکرات سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ہفتہ کو ختم ہونے والے مذاکرات میں امریکہ نے افغانستان میں موجود 14ہزار فوجیوں میں سے نصف اپریل تک نکالنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور کہا ہے کہ باقی آئندہ برس تک واپس بلا لیے جائییں گے۔
تاہم کسی معاہدے تک پہنچنے کیلئے ان امور پر مزید تفصیلی مذاکرات ہوں گے۔