فیلڈ رپورٹنگ ایک مشکل کام ہے۔ بالخصوص ایسے واقعات کی رپورٹنگ جن میں معاملہ ہولناک جانی نقصان کا ہو اور جہاں لواحقین کی حالت دیکھ کر یہ سمجھ آجائے کہ غم کا پہاڑ ٹوٹنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 4 افراد کے قتل کے بعد ’’امت‘‘ کے محمد زبیر خان لاہور میں چونگی امر سدھو کے علاقے میں پہنچے جہاں مقتول خلیل رہتے تھے اور جہاں ان کا باقی ماندہ خاندان اب بھی موجود ہے۔ محمد زبیر نے خلیل کے گھر میں کیا دیکھا۔ پڑھیے، ان کی ہی زبانی۔ تمام تصاویر محمد زبیر خان۔
رپورٹر کی زندگی میں سفر تو بہت ہیں مگر بہت کم سفر ایسے ہیں جو خوش گوار اور کسی قسم کی تلخ یادوں سے پاک اور صاف ہوں۔
ایسا ہی سفر گزشتہ دنوں سانحہ ساہیوال کے بعد لاہور کا درپیش تھا۔ ساہیوال سانحہ میں بہت کچھ سامنے آرہا ہے مگر ابھی تک واقعے میں جان بحق ہونے والی اریبہ خلیل کی بات نہیں ہوئی تھی۔ جس صبح ہم لاہور کے ڈائیو اسٹینڈ پر پہنچے اسی رات لاہور میں ژالہ باری ہوئی تھی۔ ملتان روڈ سے گزرتے ہوئے کناروں پر ژالہ باری کے بھاری نشانات موجود تھے۔ جنھیں لوگ لاہوری برف باری سے تشبیہ دے رہے تھے اور جنھوں نے کبھی زندگی میں برف دیکھ رکھی تھی وہ دوسروں کو بتا رہے تھے کہ یہ برف نہیں ہے۔
کئی ایک تو اس ژالہ باری کو سانحہ ساہیوال پر اﷲ تعالی کی ناراضگی قرار دیکر کہہ رہے تھے کہ ’ہوش کرو دیکھو یہ کیا ہورہا ہے اب بھی اگر ظلم سے باز نہ رہے تو پتا نہیں کیا ہوجائے گا۔‘
یہی کچھ دیکھتے لاہور جنرل ہسپتال کے پاس پہنچے۔ سانحہ ساہیوال کے متاثرین کے گھر لاہور جنرل ہسپتال کی پچھلی سڑک پر واقع ہیں۔
وہاں پر پہنچ کر لوگوں سے پوچھا کہ ایوب روڈ کہاں ہے تو سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ مگر جب کہا کہ سانحہ ساہیوال کے متاثرین کے گھر کہاں ہیں تو سب نے سمجھانا شروع کردیا کہ یہ والا نہیں بلکہ دوسرا اس سے اگلا یو ٹرن لیکر آئیں اور تھوڑا سا سفر کرتے ہوئے مین روڈ سے دائین طرف ایک پتلی گلی میں مڑ جائیں جہاں پر ان ہی لوگوں کی آبادی ہے۔ کوئی بھی گھر تک پہنچا دے گا۔
گاڑی سٹارٹ ہی ہوئی تھی کہ دو تین لوگوں نے کیمرہ دیکھ کر خود ہی کہنا شروع کردیا کہ ہم ذیشان کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے کہ ذیشان اور خلیل کے خاندان ایک ہی علاقے کے رہائشی تھے اور ایک دوسرے سے طویل عرصے سے جانتے تھے۔
ہم ایک متوسط بلکہ لوئر مڈل کلاس آبادی میں پہنچے۔ جہاں پر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ ان گلیوں سے بیک وقت دو کیا ایک گاڑی کے گزرنے کا راستہ بھی نہیں تھا۔ تنگ گلیوں میں جاتے ہوئے لوگوں نے بتایا کہا جہاں پر ٹیلی وژن والوں کی بہت سے گاڑیاں ہوں اور جہاں پر بہت سے کیمرے ہوں وہی ذیشان علی کا گھر ہے۔
سامنے بعین کچھ ایسا ہی منظر تھا۔ ٹی وی چینلز کی ڈی ایس این جیز کی قطاریں لگی ہوئیں تھی۔ گلی مڑتے ہی پہلا گھر ذیشان علی کا تھا۔ جس کے گھر کے باہر ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیئے گئے اس نوجوان کے نام کا بورڈ تھا اور درجنوں ٹی وی کیمرہ مین اس کے گھر کے سامنے کیمرے تاکے کھڑے تھے جیسے ابھی اس گھر سے بڑا دشمن نکلے گااور سب اس پر اپنے کیمروں کی بوچھاڑ کردیں گے۔
حیرت سے یہ منظر دیکھا مگر چاہنے کے باوجود اس منظر کی تصویر نہ بنا سکے اور ایک لمحے کے لیے بھی وہاں پر کھڑا نہ ہوئے کیونکہ ہماری تربیت تھی جس کام کے لیے جارہے ہیں اس کے راستے میں پہاڑ بھی آجائے تو راستہ بدل کر اپنی منزل کی طرف بڑھنا ہے۔
ویسے بھی ذیشان علی تو سرکاری طور پر ’’گناہ گار‘‘ تھا۔
کیمرہ اٹھائے جب ذیشان علی کے گھر کے سامنے کیمرے والوں کے سامنے سے گزرے تو ان کے چہروں پر تناؤ دیکھ کر اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ ان ہی سے کسی سے پوچھ لیتے کہ بھائی خلیل کا گھر کدھر ہے ۔ ان سے تھوڑا آگے چل کر ایک راہگیر سے پوچھا تو اس نے آسانی سے سمجھا دیا۔
مقتول خلیل کا گھر ایک بند گلی میں ہے۔ اسی گلی میں ایک چھوٹی سے بیٹھک یا ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا تھا۔ یہاں تعزیت کے لیے آنے والے بیٹھے تھے۔ دو تین لوگ ایک چارپائی پر بیتھے تھے۔ کچھ سٹول تھے جن پر بھی تین چار لوگ موجود تھے جبکہ باقی سات، آٹھ لوگ دری پر موجود تھے۔
ہم بھی اسلام علیکم کہہ کر دری پر بیٹھ گئے۔ چند لمحوں بعد دعا کا کہا تو سب نے ہاتھ اٹھا لیے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے تو دیکھا کہ کھلے دروازے میں ایک کیمرہ مین اینا کیمرہ لیکر بڑی بے تکلفی سے وڈیو بنانا شروع کردیتا ہے ، پھر دوسرا ، تیسرا اور چوتھا چند لمحوں میں وہ ٹھک کرکے چلے جاتے ہیں تو موقع پر موجود ایک نوجوان کہتا ہے کہ ’یہ ٹیلی وژن والے ہمیں پاگل بنا رہے ہیں ٹیلی وژن پر نشر کچھ ہونہیں رہا بس وڈیو ہی بناتے جاتے ہیں۔‘
جس وقت وہ نوجوان یہ بات کررہے تھے ا س وقت ہم سوچ رہے تھے کہ اس بیٹھک یا ڈرائنگ روم کی اپنے موبائل ہی سے تصویر بنا لیتے ہیں مگر ان کی بات سن کر دھچکا سا لگا اور مزید دبک کر بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد ایک صاحب نے پوچھا ۔ ’’جی کدھرسے آئے ہیں۔ لگتا ہے کہ اخبار یا ٹیلی وژن والے ہیں۔‘‘
انہیں بتایا کہ جی جی بالکل اور مدعا بیا ن کیا۔
جس کے بعد انھوں نے کہا کہ تھوڑا بیٹھیں خلیل کا ایک بھائی کامران آتا ہے وہ آپ سے تفصیل سے بات کرئے گا۔
کامران آئے تو اچھی طرح سے دعا سلام کیا اور مدعا پوچھا تو انھیں بتایا کہ اریبہ کے حوالے سے بات کرنی ہے۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’ناراض نہیں ہونا مگر کل بھی کچھ لوگ آئے تھے خود کو اخبار والا بتایا اور گھر کے اندر چلے گے تھے۔ مگر بعد میں ہمیں پتاچلا کہ وہ تو کار سرکارکے بندے تھے جنھوں نے پوچھ کچھ اور چلتے بنے۔ اب اتنا اعتماد کیسے کرسکتے ہیں۔‘‘
یہ صورتحال کوئی پہلی مرتبہ نہیں تھی۔ اس پر کامران اور بعد میں خلیل کے دوسرے بھائی جلیل کی اچھی طرح تسلی کرائی جب وہ مطمئن ہوئے تو گھر کے اند رلے گئے۔
گھر کیا تھا شاید پانچ مرلے کا بھی نہیں تھا جس میں کوئی تین کمرے تھے۔ تنگ سے بر آمدہ تھا جہاں پررشتہ دار خواتین موجود تھیں۔
ہمیں ایک تنگ کمرے میں بیٹھایا گیا اور پوچھا گیا کہ کیا کرنا ہے۔ ہم نے بے ساختہ کہا کہ کیا یہ کمرہ اربیہ کا تھا ؟۔جواب ملا نہیں دوسرا ہے اور اوپر والی منزل پر ہے۔ خواہش کا اظہار کیا کہ اس کمرے میں جاناہے تو وہ ہمیں لیکر اس کمرے میں چلے گئے۔
اس کمرے میں دو چارپائیاں تھیں۔ ایک الماری تھی، الماری کے اوپر ٹرافیاں پڑی ہوئی تھیں، پوچھا یہ کس کی ٹرافیاں ہیں تو بتایا گیا کہ اریبہ کی۔ پوچھا کس بات کی ملی ہیں جواب ملا نعت خوانی اور بہترین نتائج حاصل کرنے پر ملی تھیں۔
اریبہ لائق و فائق طالبہ تھی۔ غریب کی بیٹی تھی اسکا بیگ پرانا تھا مگر کتابیں اور کاپیاں بڑے طریقے سے رکھی ہوئی تھیں۔ کاپیاں کھولیں تو جگہ جگہ ٹیسٹ پر ’’بہت اچھا‘‘ ،’’ بہترین‘‘ کے الفاظ لکھے ملے۔ صاف ستھری لکھائی تھی۔
اریبہ کے کل اثاثے میں کتابیں ، کاپیاں اور اس کے علاوہ نعتوں پر مشتمل ایک ڈائری تھی۔ جس کے آغاز میں انگریزی میں اریبہ خلیل کا نام تحریر تھا جبکہ اس ڈائری کا ایک ورق کھولا تو اﷲ، محمد کے نام کی خوبصورت ڈرائنگ نظر آئی اور ساتھ ہی مشہور زمانہ نعت ’’فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر‘‘ لکھی ہوئی تھی۔
اس نعت کے تین ہی مصرعے لکھے تھے۔ آخری مصرعہ تھا ، ’’ ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے۔‘‘
میں تو پیشہ ور رپورٹر ہوں، میرا کام ایسا ہے کہ اگر ہر بات پر جذباتی ہوجاؤں تو بات نہیں بنتی۔ ایک نظر ادھر ادیر دیکھا تو موقع پر موجود سب لوگوں کی آنکھیں بھیگ چکی تھی۔ ایسے میں بدقسمتی یا خوش قسمتی سے میں نے اریبہ کی ہوم ورک ڈائری کو ہاتھ میں اٹھا کر کھول دیا۔ یہ ڈائری مکمل ہوچکی تھی ۔ سانحہ ساہیوال 19جنوری کو ہوا تھا اور اس ڈائری کا آخری ورق پندرہ جنوری کو لکھا گیا تھا۔ جو اربیہ کی زندگی کا آخری ہوم ورک ڈائری کاآخری ورق تھا۔
میری نظر اس ڈائری کے سب سے آخری لائن پر ٹک گئی تھی ۔ جس میں انگریزی کا ایک سبق اس کا ہوم ورک تھا۔ لکھا تھا،’’you cannot escape from you fate‘‘
یعنی ’’تم اپنے مقدر سے نہیں بھاگ سکتے۔‘‘
صورتحال کیا تھی ۔ آرمی پبلک اسکول پشاور اور دیگر کئی تعلیمی اداروں کے طالب علم بھی بے گناہ مارے گئے تھے۔ مگر ان کا نوحہ پڑھنے ، ان کو یاد کرنے کے لیے، ان کا دکھ منانے کے لیے ان کے ماں ، باپ موجود تھے۔ اریبہ کے ڈیڈی اور مما بھی اس کے ساتھ منوں مٹی تلے سو گئے تھے۔
وہ ماں باپ جو اس کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے جنھوں نے اریبہ کو شادی کے فنکشن میں شریک کرانے کے لےئے اس کو بتائے بغیر اپنا پیٹ کاٹ کر نئے کپرے بنوائے تھے۔
خلیل اور نبیلہ کی اولاد میں سے 3 تین بچے زندہ بچے ہیں۔ جو گھر کے ایک کونے میں سمے ہوئے موجود تھے۔ چاہنے کے باوجود رپورٹر کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ عمیر سے کہہ سکتا کہ ’’بیٹا تم نے کیا دیکھا؟‘‘