مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے جنگ کے حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ فورسز کی بھاری نفری پہنچا دی گئی ہے جس میں اکثریت بھارت کی بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کی ہے۔ راشن کی ہنگامی فروخت شروع ہوگئی ہے۔ طبی عملے کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔ وادی میں جنگی طیاروں اور ہیلی کاپروں کی پراوزیں بھی جاری ہیں۔
ان جنگی تیاریوں کے ساتھ حریت قیادت سمیت سیاسی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈائون بھی چل رہا ہے اور 150 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
بھارت کے سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے ہفتہ کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ وادی میں راشن ڈپوز کے عملے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنا تمام راشن ہفتہ کو فروخت کردیں۔ جبکہ اتوار کو بھی راشن ڈپو کھلے رکھے جائیں۔ بعض دیگر اطلاعات کے مطابق راشن ڈپوز کے عملے کو مزید راشن نہ خریدنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ تمام اسپتالوں کے میڈیکل افسران کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ ادویات کا ذخیرہ کرلیں۔ اسپتالوں کے عملے کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔
راشن اور ادویات سے متعلق حکم ناموں کے عکس سوشل میڈیا پر پھیل گئے جس سے وادی کے لوگ مزید خوف و ہراس کا شکار ہوئے۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق وادی میں پیراملٹری فورسز کی مزید 100 کمپنیاں یعنی 10 ہزار اہلکار تعینات کیے گئے ہیں اور حکام نے ’اتنی بڑی تعیناتی کا جواز‘ نہیں دیا۔ کشمیری میڈیا کے مطابق جو اضافی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں ان میں اکثریت بارڈر سیکورٹی فورس کی ہے۔ 14 برس بعد پہلی مرتبہ وادی میں بی ایس ایف کو تعینات کیا گیا ہے۔ 2005 میں بی ایس ایف کو کشمیر سے نکال کر گارڈ ڈیوٹی سی آر پی ایف کو دے دی گئی تھی۔
خبر ایجنسی نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں جنگی طیاروں کی پروازیں بھی جاری ہیں جس کی وجہ سے لوگ پریشانی کا شکار ہیں۔ اگرچہ حکام نے انہیں معمول کی پروازیں قرار دیا ہے۔ کشمیری میڈیا کا کہنا ہے کہ جنگی ہیلی کاپٹروں کی پروازیں بھی مسلسل ہو رہی ہیں۔
وادی میں حریت رہنمائوں کے خلاف جمعہ کو ہی کریک ڈائوں شروع کردیا گیا تھا اور یاسین ملک کو حراست میں لے لیا گیا ہفتہ کو اس کریک ڈائون کا دائرہ وسیع کر دیا گیا۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے 150 رہنمائوں کی گرفتاری کی تصدیق کی جن میں جماعت اسلامی کے عبدالحمید فیاض بھی شامل ہیں۔
یہ کریک ڈاؤن اور جنگی تیاریاں اتنی حیرت انگیز ہیں کہ وادی میں بھارت نواز رہنما محبوبہ مفتی نے بھی حیرت اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بی جے پی کی اتحادی جماعت پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون نے کہاکہ 1990 میں بھی گرفتاریاں کی گئی تھیں اور لوگوں کو جودھ پور سمیت مختلف جیلوں میں پہنچا دیا گیا تھا لیکن صورت حال خراب ہی ہوئی۔