مودی حکومت کی جانب سے پلوامہ حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیے جانے کے باوجود بھارتی تفتیش کار تاحال اس حملے اور پاکستان کے درمیان تعلق کا کوئی ثبوت تلاش نہیں کر پائے۔
حملے کے 10 دن بعد پیر کو خود دھماکے کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی اور اس کے مالک کی شناخت کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم مبینہ مالک گرفتار نہیں ہوا۔
بھارت میں مختلف خفیہ اداروں کو ملا کر انسداد دہشت گردی کے لیے بنائی گئی نیشنل انوسٹی گیٹو ایجنسی (این آئی اے)نے پیر کو اعلان کیا کہ اس کے ماہرین نے فارنزک جانچ کے لیے پتہ چلایا ہے کہ حملے کیلئے ماروتی سوزوکی ایکو گاڑی استعمال ہوئی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ترجمان نے بتایا کہ یہ گاڑی 2011 میں اننت ناگ(اسلام آباد) کے رہائشی جلیل حقانی کو فروخت کی گئی اس کے بعد مختلف لوگوں کو فروخت ہوئی۔
بھارتی تفتیشی ادارے کے مطابق پلوامہ حملے سے 10 دن قبل 4 فروری کو ضلع اننت ناگ کے علاقے بیج بہاڑ کے رہائشی سجاد بھٹ ولد محمد مقبول بھٹ نے یہ گاڑی خریدی۔ سجاد بھٹ شوپیاں میں مدرسہ سراج العلوم کا طالب علم رہا ہے۔
این آئی اے ترجمان کے مطابق 23 فروری کو سجاد بھٹ کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تاہم وہ نہیں ملا اور مسلسل گرفتاری سے بچ رہا ہے۔ بھارتی ادارے نے دعویٰ کیا کہ سجاد بھٹ جیش محمد میں شامل ہو چکا ہے۔
این آئی اے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ سوشل میڈیا پر پیر کی صبح سے گردش کرنے والی تصویر سجاد بھٹ کی ہے۔
پیر کی صبح اچانک جیش محمد کے جھنڈے اور ہتھیاروں کے ساتھ ایک نوجوان کی تصویر سوشل میڈیا پر ابھری۔ اس تصویر میں ایک نوجوان ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میںں کلاشنکوف لیے بیٹھا ہے۔ تصویر کے اوپر انگریزی اور اردو تحریر ہے۔ انگریزی میں لکھا ہے، ’’حافظ سجاد بھٹ عرف افضل گرو والد محمد مقبول بھٹ مرحمہ سنگم اسلام آباد کا رہائشی، تنظیم جیش محمد فدائین اسکواڈ‘‘
اس کے نیچے اردو میں دو شعر لکھے ہیں جن میں بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کی گئی۔
این آئی اے کے اس بیان سے قبل تفتیشی ادارے کے ذرائع کے حوالے سے بھارتی میڈیا نے خبریں شائع کی تھیں کہ وہ کیس حل کرنے کے قریب ہیں اور پاکستان کا تعلق انہیں نظر آرہا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے ہی بھارتی میڈیا نے حملے میں ماروتی سوزوکی ایکو گاڑی استعمال ہونے اور مالک کے فرار ہونے کی خبر دی تھی۔
یاد رہے کہ پلوامہ حملے کے بعد ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ خودکش دھماکے لیے مہیندرا اسکارپیو گاڑی استعمال کی گئی۔
پیر کی صبح سامنے آنے والی بھارتی میڈیا کی رپورٹوں میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ گاڑی کافی عرصے سے کشمیری مجاہدین کے زیر استعمال تھی اور ان کے پاس دیکھی گئی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق تفتیش میں یہ بھی پتہ چلا کہ گاڑی میں 25 کلوگرام آرڈیس ایکس دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا، یہ دھماکہ خیز مواد پاکستان سے آنے کا ثبوت نہیں لیکن تفتیش کاروں کا دعویٰ ہے کہ اس کے سلسلے میں ’’معلومات‘‘ سرحد پار سے آئیں۔
تفتیش میں اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی کہ حملہ کرنے والے جیش محمد کے عادل ڈار عرف وقاص کمانڈو کا پلوامہ کے گائوں ککا پورہ میں واقع گھر گذشتہ برس بھارتی فورسز نے جلانے کی کوشش کی تھی جس پر عادل کو غصہ تھا۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق تفتیش میں پتہ چلا ہے کہ حملہ چار سے پانچ افراد نے کیا، تفتیش کاروں نے ان کی شناخت ظاہر نہیں کی لیکن ان کا کہنا ہے کہ تفصیلات دو ہفتے میں سامنے آجائیں گی۔
گرفتار کشمیری طلبہ کا جیش محمد سے تعلق کا دعویٰ
دریں اثنا بھارتی حکام نے دیوبند کے ہاسٹل سے دو کشمیری نوجوانوں کو بھی گرفتار کیا ہے جنہوں نے بھارتی حکام کے بقول چند ہی گھنٹے میں جیش محمد اور پلوامہ حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ عبدالرشید غازی سے تعلق کا اعتراف کرلیا۔
دیوبند کے ایک ہاسٹل سے اتوار کے روز گرفتار کیے گئے کشمیری طلبہ پر شروع میں الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے جیش محمد سے تعلق رکھنے کسی ’خاص مہمان‘ کو اپنے یہاں ٹھہرایا ہوا تھا جو چھاپے سے پہلے فرار ہوگیا۔ پیر کو بھارتی پولیس نے دعویٰ کیا کہ دونوں نے نہ صرف جیش محمد بلکہ پلوامہ حملے کے ماسٹر مائنڈ غازی عبدالرشید سے تعلق کا بھی اعتراف کرلیا۔
یاد رہے کہ بھارتی میڈیا نے پہلے غازی عبدالرشید کو حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے خبر کے ساتھ 2007 میں لال مسجد آپریشن میں مارے گئے غازی عبدالرشید کی تصویر شائع کی تھی۔ دو دن بعد جب پلوامہ میں ایک آپریشن میں غازی عبدالرشید کے مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا تو بھارتی میڈیا نے ایک اور تصویر شائع کی اور وہ بھی جعلی نکلی۔
اب دیوبند سے گرفتار کشمیری طلبہ کو پلوامہ میں مبینہ طور پر مارے گئے جیش محمد کمانڈر غازی عبدالرشید کا ساتھی قرار دیا جا رہا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان کشمیری طلبہ سے ہونے والی تفتیش کی تصاویر بھی بھارتی میڈیا پر شائع کی گئی ہیں جن وہ پولیس افسران کے سامنے بیٹھے ہیں۔
بھارتی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ چار گھنٹے کی تفتیش میں شاہ نواز نےبتایا کہ وہ ڈیڑھ برس سے جیش محمد کے ساتھ ہے جبکہ اس کا دوسرا گرفتار ساتھی عاقب چھ ماہ پہلے تنظیم میں شامل ہوا۔
ایک اور مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیاگیا کہ جیش محمد کے اعلیٰ کمانڈروں نے ان سے رابطہ کرکے انہیں تنظیم میں شامل ہونے کے لیے کہا تھا۔
بھارتی پولیس نے ان کے فونز کی ریکارڈنگ قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا ہے جس میں پولیس کے بقول ان نوجوانوں نے ’’بڑا کام‘‘ اور ’’سامان‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے۔ پولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ بلیک بیری سے بھی پیغامات کا تبادلہ کرتے تھے اور اپنی شناخت چھپانے کیلئے ورچول نمبر استعمال کرتے رہے۔
ان دونوں کو مقبوضہ کشمیر لے جا کر مزید تفتیش کی تیاری کی جا رہی ہے۔