پاکستان میں بھارت مخالف تنظیموں کیخلاف وسیع ترین کریک ڈائون کے دوران یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ حکومت ان کالعدم تنظیموں سے وابستہ افراد کو مرکزی دھارے میں لانا چاہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان کے کچھ عسکریت پسندوں کو بھرتی بھی کرلیا جائے۔ گو کہ ان اطلاعات کی سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ان افراد کو مرکزی دھارے میں لانے کی پالیسی پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہاکہ what the hell is mainstreaming (مرکزی دھارے میں لانے کی کیا فضول بات ہے۔)
بلاول کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کو خوش کرنے اور انہیں ’’نام نہاد‘‘ مرکزی دھارے میں لانے کی پالیسی پاکستان کی پارلیمنٹ کی نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کے برعکس پالیسی نافذ کی جاتی ہے۔
بلاول کے اس مؤقف کے پاکستان کے اندر اور باہر کئی رہنما حامی ہیں تاہم بدھ کی ان کی تقریر کو بالخصوص بھارت میں بہت پسندیدگی سے دیکھا گیا۔
پاکستان کے حوالے سے ایک غلط تاثر بالعموم پایا جاتا ہے کہ شاید دنیا میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو کالعدم تنظیموں پر انحصار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں سپریم کورٹ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر کالعدم تنظیموں کو استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ حکومت کی حامی ملیشیاز (Pro Government Militias) ایک ایسا موضوع ہے جس پر کئی جگہ ریسرچ ہو رہی ہے۔ اور ریسرچ کا سبب حکومتی کی حامی ملیشیاز یا پی جی ایمز کا بڑے پیمانے پر استعمال ہے۔
’’اسٹیڈیز ان کانفلکٹ اینڈ ٹیررازم‘‘ نامی جریدے میں 2017 میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق 1981 سے 2011 تک 71 خانہ جنگیوں میں 220 حکومت کی حامی ملیشیاز یا پی جی ایمز سامنے آئیں۔ اس میں حکومت مخالف ملیشیا فورسز یا باغی تنظیمیں شامل نہیں۔ ایک اور تحقیق میں پی جی ایمز کی تعداد 322 بتائی گئی ہے۔
کالعدم تنظیموں کو تحلیل کرنا ہی اس وقت پاکستان میں ایک اہم موضوع ہے۔ درحقیقت کسی ملیشیا یا فوج کو کھڑا کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام اسے ڈی موبلائز کرنا سمجھا جاتا ہے۔
بھارتی تنظیمیں کالعدم ہو کر بھی زندہ
پاکستان پر جہاد کشمیر کی حامی تنظیموں کو ختم کرنے کے لیے دبائو ڈالنے والے بھارت نے 2005 میں ریاست چھتیس گڑھ میں سلوا جوڈم (Salwa Judum ) یا امن مارچ کے نام سے ایک تنظیم کھڑی کی تھی جسے بھارت کی سپریم کورٹ نے 5 جولائی 2011 کو کالعدم قرار دے دیا تاہم یہ تنظیم آج بھی موجود ہے۔ سلوا جوڈم کا مقصد نکسل باغیوں سے لڑائی میں ملکی فورسز کو مدد دینا تھا۔ اس تنظیم کے کارندوں کو تربیت اور اسلحہ بھی بھارتی فورسز کی طرف سے فراہم کیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دیئے جانے کے باوجود بھارتی حکومت نے اس تنظیم کا وجود ختم نہیں کیا۔ حالانکہ سلوا جوڈم میں شامل جنگجو مقامی آبادی کے لیے پریشانی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ جن خاندانوں کے لڑکے تنظیم میں شامل نہیں ہوتے ان کی عورتوں سے سلوا جوڈم کے کارندے زیادتی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت اس تنظیم کی حامی ہے جب کہ اس کی فنڈنگ بڑے کاروباری ادارے کرتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں ویلج ڈیفینس کمیٹیوں کے ذریعے کشمیری حریت پسندوں سے مقابلہ کرنے کی بھارتی حکمت عملی بھی اب تک ختم نہیں ہوئی۔ ویلج ڈیفنیس کمیٹیوں کے نام پر شروع میں جب ہندوئوں کو مسلح کیا گیا تو کشمیر میں ہندو مسلم تنائو بڑھ گیا۔ ویلج ڈیفینس کمیٹیوں کے ارکان مقامی آبادی کو ستانے لگے۔ یہ معاملہ بھی عدالت پہنچا۔ حکومت نے ان کمیٹیوں کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا تاہم عملی طور پر ان کمیٹیوں کے ارکان آج بھی مقبوضہ کشمیر میں فورسز کے لیے مخبری کا کام کر رہے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں ایمریم میزائل کا ٹکڑا بھی ویلج ڈیفنس کمیٹی کے ارکان ڈھونڈ کر لائے جنہیں حکومت کی طرف سے انعام دیا گیا۔
پاکستانی میزائل کا ٹکڑا مقبوضہ کشمیر میں بہت اندر سے ملنے کا دعویٰ
بھارت کی یہ وہ بڑی مثالیں ہیں جہاں سرکاری طور پر کالعدم قرار دی گئی تنظیمیں پوری طرح فعال ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں اس کے علاوہ ہیں جنہیں کالعدم قرار دینے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔
کالعدم تنظیمیں کیوں ضروری
جرمن فلاسفر نے میکس ویبر نے ریاست کی مشہور تعریف یوں وضع کی تھی کہ ’’ریاست انسانوں کی وہ برادری ہے جسے طاقت کے جائز استعمال پر اجارہ داری حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘ تاہم ولسن سینٹر سے وابستہ امریکی پروفیسر ایریل ارہام اپنی کتاب ’’پراکسی وارریئرز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بہت کم ریاستیں ایسی ہوتی ہیں جو فوجی طاقت پر مکمل اجارہ داری حاصل کرنے کی ’کوشش‘ کرتی ہیں، حاصل کرلینا تو دور کی بات۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاستیں مسلسل اس حوالے سے اندرونی اور بیرونی چیلنجرز سے مذاکرات، تعاون اور ان پر حاوی آنے کی کشمشکش میں رہتی ہیں۔
یہ رائے صرف ایریل کی ہی نہیں بلکہ کئی دیگر اسکالرز کی بھی ہے۔ سادہ الفاظ میں طاقت یا تشدد پر مکمل اجارہ داری حاصل کرنا بیشتر ریاستوں کے لیے ممکن نہیں رہا لہٰذا وہ غیرریاستی عناصر کو اپنے ساتھ ملاتی ہیں اور ایسا دنیا کے بیشتر ممالک میں ہو رہا ہے۔ بشمول بھارت کے۔
کیا مسلح تنظیموں کا وجود اچھا ہے؟
طاقت پر مکمل اجارہ داری حاصل کرنا مشکل ہونے کی حقیقت اپنی جگہ تاہم ایک آئیڈیل ریاست وہی ہوتی ہے جسے یہ اجارہ داری حاصل ہو۔ حکومتی حامی ملیشیاز یا پی جی ایمز کی موجودگی حقیقت میں ریاست کی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔ ان تنظیموں کے حوالے سے یہ سوال سب سے اہم ہوتا ہے کہ کیا ریاست پی جی ایمز کو کنٹرول کر رہی ہے یا پی جی ایمز ریاست کو کنٹرول کر رہی ہیں؟
لہذا ریاستی طاقت کے کسی بھی حصے پر کنٹرول کا دعویٰ کرنے والے مسلح گروہ حقیقت میں ریاست کے لیے خطرہ ہی ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے ایران کی مثال اکثر دی جاتی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلےایک جدید مرکزی اور پروفیشل فوج تھی۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایریل ارہام کے بقول ’’ملیشیا پر مبنی فوج‘‘ سامنے آئی۔ تاہم دو برس کے اندر اندر آیت اللہ حمینی کی قیادت میں مرکزی پیشہ ور فوج کا ڈھانچہ دوبارہ مضبوط کر دیا گیا۔
پاکستان کی کالعدم تنظیمیں
پاکستان میں کالعدم تنظیموں کو تین ذمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث تنظیمیں۔۔ سپاہ صحابہ، سپاہ محمد وغیرہ
2۔ ریاست پاکستان کی مخالف دہشت گرد تنظیمیں ۔ ٹی ٹی پی وغیرہ
3۔ بھارت کے خلاف سرگرم تنظیمیں جو ریاست پاکستان سے نہیں ٹکرانا چاہتیں
ان میں سے پہلے دو ذمروں میں آنے والی تنظیمیوں کے خلاف ریاست جنگ لڑ رہی ہے اور بڑی حد تک جیت بھی چکی ہے۔ تیسرے ذمرے میں آنے والی تنظیمیں ہی اس وقت حکومتی حامی ملیشیا یا پی جی ایمز میں شمار ہوتی ہیں۔ ان تنطیموں کے معاملے میں اب تک تصادم کا راستہ نہیں اپنایا گیا۔ ان تنظیموں کا کردار 1990 کی دہائی میں کافی وسیع تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں اسے کم کردیا گیا۔ (اس دوران بعض عناصر باغی ہوئے جو ایک الگ اور طویل داستان ہے) اب بظاہر یہ کردار بالکل ختم کیا جا رہا۔
کالعدم تنظیموں کی تحلیل
تاہم ان پی جی ایمز کو ڈی موبلائز یا تحلیل کرنا اپنے آپ میں ایک بھاری بھرکم ذمہ داری ہے۔ عام طور پر ایسی تنظیموں کو ملک کی باقاعدہ فورسز میں شامل (reintegration ) کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔
سبین سی کیری اور نیل مچلز نے 2017 کے اپنے ایک ریسرچ پیپر ’’پرو گورنمنٹ ملشییاز‘‘ میں ڈیٹا کے ذریعے یہ دلچسپ نتائج اخذ کیے کہ حکومت اور پی جی ایمز کے درمیان تعلقات جتنا قریبی ہوگا اتنا ہی ان تنظیموں کا ریاست یا عوام کے لیے خطرہ کم ہوگا۔
اگر حالیہ دنوں کالعدم قرار دی گئی تنظیموں اور ریاست میں قریبی روابط کے الزامات درست ہیں تو مذکورہ بالا نتائج کی روشنی میں اچھے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔