مقبوضہ جموں و کشمیر میں جموں بس اڈے پر دستی بم حملہ کے ملزم کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ اسکول کا طالب علم ہے۔ جمعرات کو جموں میں اڈے پر ایک بس کے نیچے دستی بم پھینکا گیا تھا جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور 32 زخمی ہوئے تھے۔ زخمیوں میں سے 2 دم توڑ گئے جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 3 ہوگئی ہے۔
پولیس نے حملے کے ایک گھنٹے بعد ہی ایک شخص کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔ جمعہ کو مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا کہ بم حملہ کرنے والا نوعمر لڑکا ہے۔ گریٹر کشمیر کے مطابق حملہ کرنے والے کی عمر 15 برس کے لگ بھگ ہے۔ این ڈی ٹی وی نے بتایا کہ حملہ آور نویں جماعت کا طالب علم ہے اور وہ بم اپنے ٹفن میں چھپا کر لایا تھا۔ دستی بم کو ٹفن میں رکھنے کے بعد اس نے اوپر چاولوں کی تہہ لگا دی تھی۔
اس معاملے کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ مذکورہ طالب علم کلگام کا رہائشی ہے اور وہ 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے بم حملہ کرنے جموں گیا۔ وہ واپس آرہا تھا جب پولیس نے اسے جموں سے 20کلومیٹر دور نگروٹہ کے مقام پر گرفتار کیا۔ بھارتی حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ انہیں پہلے سے ممکنہ دستی بم حملے کی اطلاع تھی اور اسی وجہ سے ایک گھنٹے کے اندر اندر حملہ آور پکڑا گیا۔ تاہم بھارتی حکام نے یہ نہیں بتایا کہ اگر پہلے سے اطلاع تھی تو انہوں نے حملہ کیوں نہیں روکا اور یہ کہ یہ نوعمر لڑکا اتنی دور تنہا جموں کیسے پہنچا۔ جب کہ اس دوران اس نے جموں سرینگر شاہراہ پر بھی سفر کیا جہاں کڑی نگرانی رکھی جاتی ہے۔
بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ بم حملہ کرنے والے لڑکے کو ایک کار ڈرائیور نے جموں پہنچایا جسے وہ تلاش کر رہے ہیں۔
جموں کے آئی جی ایم کے سنہا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے کے پیچھے حزب المجاہدین ہے۔ اور کلگام میں حزب المجاہدین کے مقامی سرباہ فاروق احمد بھٹ نے نوعمر لڑکے کو بم حملہ کرنے بھیجا تھا۔
بھارت ہمیشہ سے پروپیگنڈہ کرتا آرہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے خلاف جہاد پاکستان سے بھیجے گئے مجاہدین کے سبب ہو رہا ہے تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس سے قبل پلوامہ میں 14 فروری کو بھارتی فورسز کے قافلے پر خودکش بم حملہ کرنے والے عادل ڈار کا تعلق بھی مقبوضہ کشمیر سے ہی تھا۔