ملاعمر کی زندگی پر کتاب لکھنے والی ڈچ صحافی بیٹی ڈیم نے جہاں یہ تفصیل سے یہ بتایا ہے کہ زابل میں 12 سالہ گوشہ نشینی کے دوران ملاعمر کیا کرتے رہے وہیں انہوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ طالبان رہنما ولی اللہ کے درجے پر فائز ہوچکے تھے۔ وہ اس کا ایک ثبوت یہ دیتی ہیں کہ ملاعمر کے انتقال کے دن افغانستان کے خشک علاقے میں حیرت انگیز طور پر شدید ژالہ باری ہوئی جس سے فوجی اڈے پر کھڑے متعدد امریکی ہیلی کاپٹر تقریباً تباہ ہوگئے۔
بیٹی ڈیم کی کتاب میں پیش کیے گئے اس مؤقف کے ملاعمر کبھی پاکستان نہیں گئے بلکہ سارا وقت افغانستان میں ہی تھے، پر کابل کی اشرف غنی حکومت، بعض امریکی حکام اور بھارتی اسٹیبشلمنٹ شدید ناراض ہیں۔ کتاب لکھنے کے بعد انٹرویوز میں بیٹی دیم کا کہنا تھاکہ شروع میں وہ بھی یہی سمجھتی تھیں کہ ملاعمر پاکستان میں مقیم تھے لیکن ریسرچ سے حقیقت سامنے آگئی۔
ملاعمر کے ولی اللہ ہونے کے بارے میں اظہار خیال کے باوجود بیٹی ڈیم ان کی عقیدت مند نظر نہیں آتیں بلکہ ایک موقع پر وہ ملاعمر کی دینی و دنیاوی تعلیم پر شکوک ظاہرکرتی ہیں۔
بیٹی ڈیم نے ملاعمر کی 12 سالہ گوشہ نشینی کی بیشتر معلومات ان کے آخر وقت کے ساتھی ملا عبدالجبار عمری سے حاصل کی ہیں۔ عبدالجبار عمری اس وقت افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کی قید میں ہیں۔ تاہم ڈچ صحافی کے بقول انہوں نے تمام معلومات کی دوسرے ذرائع سے تصدیق بھی کی۔ اس کے علاوہ بیٹی ڈیم کا کہنا ہے کہ ملاعمر کی قبر کا مقام معلوم کرنے کے باوجود انہوں نے کتاب میں اس کی نشاندہی نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ خدشہ تھا کہ افغان حکام طالبان قائد کی قبر کی بے حرمتی کریں گے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ملاعمر نے 2001 کے اختتام سے چار برس زابل کے دارالحکومت قلات میں گزارتے اور باقی ساڑھے 7 برس زابل میں ہی ضلع شنکے کے علاقے سیورے میں مقیم رہے۔
عبدالجبار عمری نے ڈچ صحافی کو بتایا کہ ملاعمر بہت کم بولتے تھے اور جب بولتے تو آواز بہت دھیمی ہوتی۔ ایک مربتہ عبدالجبار نے پیشکش کی کہ وہ انکے بیٹے یعقوب کو ملاقات کے لیے لاسکتے ہیں تاہم ملاعمر نے انکار کردیا۔ ملاعمر تنہا رہ کر عبادت کرنا پسند کرتے، کبھی کبھی وہ خود بھی کھانا بناتے۔ عبدالجبار عمری سے بھی ان کی بات اس وقت ہی ہوتی جب دونوں نماز کے لیے وضو کر رہے ہوتے۔ بیٹی ڈیم کے مطابق ملاعمر صرف مہندی اور نسوار کی فرمائش کرتے۔ وہ اپنی سفید ہوتی داڑھی پر باقاعدگی سے مہندی لگاتے۔سیورے میں میزبان خاندان سے ان کی بات چیت صرف اسی وقت ہوتی جب وہ اخراجات کے لیے رقم انہیں دیتے۔
کتاب کے مطابق ملاعمر کا زیادہ وقت قرآن اور حدیث پڑھتے گزرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے انہیں مسرت ملتی ہے۔ وہ اکثر قرآنی آیات عبدالجبار عمری کو سناتے۔ عبدالجبار عمری کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث کے علاوہ ملاعمر نے کچھ نہیں پڑھا۔ وہ دیر تک مراقبے کی طرح ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے۔ ایک سہ پہر عبدالجبار نے ملاعمر کو دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے دیکھا، ان کی آنکھیں بند تھیں۔ عبدالجبار کوخدشہ ہوا کہ ملاعمر سو رہے ہیں اور ان کی نماز قضا ہوجائے گی۔ لہٰذا انہوں نے ملاعمر کو ہلا کر جگانے کی کوشش کی۔ ملاعمر اس پر برہم ہوگئے۔ تاہم اگلے کھانے پر انہوں نے عبدالجبار عمری سے معذرت کی اور بتایا کہ وہ عبادت کر رہے تھے۔
عبدالجبار عمری کے مطابق ملاعمر کے پاس ایک پرانا نوکیا فون تھا جس میں سم نہیں تھی۔ ملاعمر فون پر بات نہیں کرتے تھے تاہم وہ اس فون میں اپنی آواز میں قرآنی آیات ریکارڈ کرتے جو بعد میں سنتے رہتے۔ بعض اوقات وہ اپنے ساتھی کے ساتھ کلاسک (قرآنی) عربی بولتے۔ بیٹی ڈیم لکھتی ہیں، عبدالجبار عمری کو لگنے لگا کہ ملاعمر ولی کے درجے پر پہنچ گئے ہیں اور انہیں الہام ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ ان الہامات کو تحریری شکل میں لانے کی کوشش بھی کرتے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی الگ زبان ایجاد کی۔ اس زبان میں انہوں نے چار موٹی نوٹ بکس بھر دیں جو ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے یعقوب کے حوالے کی گئیں۔
یہاں ڈچ صحافی لکھتی ہیں کہ ملاعمر نے انوکھی زبان شاید اس لیے اپنائی تھی کہ وہ زیادہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ بیٹی ڈیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ عام تاثر یہ ہے کہ ملاعمر نے پاکستان کے مدرسہ حقانیہ میں تعلیم حاصل کی لیکن حقیقت میں انہوں نے صرف بنیادی دینی تعلیم لی تھی۔
ڈچ صحافی نے کہاکہ 2013 کے اوائل میں ملاعمر بیمار ہوئے، انہیں کھانسی اور قے کی شکایت تھی۔ انہوں نے عبدالجبار عمری کو بتایا دیا کہ ان کا وقت پورا ہوگیا ہے۔ جب عبدالجبار عمری نے ڈاکٹر بلانے کی بات کی تو انہوں نے انکار کردیا۔ عبدالصمد استاذ نے ملاعمر کو پاکستان میں اسپتال لے جانے کی پیشکش کی لیکن ملاعمر نے اس سے بھی انکار کردیا۔
بیٹی ڈیم کے مطابق 23 اپریل 2013 کو ملاعمر کا انتقال ہوگیا اور عبدالجبار کا کہنا ہے کہ اس دن گرم اور خشکی کے مارے جنوبی افغانستان میں ایسا واقعہ رونما ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ژالہ باری ہوئی۔ ڈچ صحافی نے لکھا کہ میرا خیال تھا کہ عبدالجبار بڑھا چڑھا کر بات کر ہے ہیں لیکن بعد میں امریکی فوج کے ایک جریدے سے مجھے پتہ چلا عین اسی دن ’’ٹاسک فورس فیلکن کے 80 سے زائد ہیلی کاپٹرز کو اس وقت نقصان پہنچا تک جب قندھار ایئرفیلڈ پر اچانک 23 اپریل کوژالہ باری ہوگئی۔ یہاں بریگیڈ کے آدھے ہیلی کاپٹر کھڑے تھے۔‘‘بیٹی ڈیم نے اس حوالے سے ایش سی کی کتاب ’’فیلکن فلائر‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔
ڈچ صحافی کے مطابق عبدالجبار عمری اور ان کے دو ساتھیوں کے رات کے وقت ملاعمر کی تدفین کی۔ ان بغیر تابوت ایک بغیرکسی نشانی والی قبر میں سپردخاک کیا گیا۔ پھر عبدالجبار عمری کوئٹہ گئے اور ملاعمر کے سوتیلے بھائی عبدالمنان اور ملاعمر کے بیٹے یعقوب کو لے کر آئے۔ عبدالجبار نے تدفین کی ویڈیو بنارکھی تھی لیکن یعقوب نے قبرکشائی پر اصرار کیا تاکہ وہ اپنے والد کی میت اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ 17 دن بعد ایک بار پھر قبرکشائی کی گئی اور ملاعمر کی لاش تابوت میں رکھ کردفنائی گئی۔