امریکہ اور افغانستان کی اشرف غنی حکومت نے ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین بیانات دیئے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف اس انداز میں پھٹ پڑے ہیں کہ افغان مشیر سلامتی کو امریکی محکمہ خارجہ میں طلب کرکے ان کے بیان کو مسترد کیا گیا۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان گذشتہ کئی ماہ سے آگے بڑھتے مذاکرات کے دوران اشرف غنی حکومت کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق تھا۔ غنی حکومت نے کئی مرتبہ یہ مذاکرات رکوانے کی کوشش کی۔
تاہم جمعرات کو معاملات اس وقت انتہائی ناخوشگوار ہوگئے جب افغان مشیر سلامتی حمد اللہ محب نے یہ سنگین الزام عائد کیا کہ طالبان سے مذاکرات میں امریکی وفد کی سربراہی کرنے والے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کابل حکومت کی قانونی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حمداللہ محب ان دنوں واشنگٹن کے دورے پر ہیں اور انہوں نے یہ بات وہاں پر صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔ امریکی صحافیوں کے مطابق افغان مشیر سلامتی نے صحافیوں سے بھرے کمرے میں کہا کہ زلمے خلیل زاد خود صدر بننا چاہتے تھے اور اب وہ حامد کرزئی کو آگے رکھ کر افغانستان کی حکومت کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
یہ الزام انتہا سنگین تھا کہ کئی امریکی صحافی بھی حیران رہ گئے۔
بعد ازاں امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ امریکی انڈرسیکریٹری برائے سیاسی امور ڈیوڈ ہیل نے افغان مشیر سلامتی کو طلب کیا اور مذاکرات کے لیے سلسلے میں امریکی لائحہ عمل پر تنقید کے حوالے سے ان کے بیان کو مسترد کردیا۔
بیان کے مطابق افغان مشیر سلامتی کو یاد دلایا گیا کہ امریکہ عرصے سے افغان حکومت کی حمایت کرتا آرہا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد امریکی وزیرخارجہ کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان پر حملہ امریکی محکمہ خارجہ پر حملے اور دوطرفہ تعلقات اور امن عمل میں رکاوٹیں ڈالنے کے مترادف ہے۔
یاد رہے کہ روزنامہ امت نے کئی ماہ پہلے خبریں دی تھی کہ اشرف غنی حکومت طالبان امریکہ مذاکرات سبوتآژ کرنا چاہتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ اور اشرف غنی حکومت کے درمیان اختلافات اس طرح کھل کر سامنے آئے ہیں۔