مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں 14 فروری کو بھارتی فورسز پر ہونے والے خودکش حملے کی تحقیقات میں بھارت کو اپنا پول کھلنے کا خوف لاحق ہوگیا ہے اور وہ ویڈیو سے متعلق اہم تفصیلات پاکستان کو فراہم نہیں کر رہا۔
اونتی پورہ میں حملے کے چند ہی منٹ بعد ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی تھی جس میں عادل ڈار نامی ایک نوجوان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ویڈیو میں کالعدم جیش محمد کا پرچم موجود تھا اور جیش محمد کے نام پر بھارت نے حملے کا تعلق پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔
پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے شخص کا آئی پی ایڈریس بتائے، اس کے علاوہ واٹس ایپ اور ٹیلی گرام موبائل ایپس کے ان گروپوں کے منتظمین کے جی ایس ایم نمبر بھی فراہم کرے جن میں پلوامہ حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔
تاہم بھارت یہ معلومات دینے سے انکار کر رہا ہے۔
بھارتی حکومت نے گذشتہ دنوں پلوامہ حملے سے متعلق ایک ڈوزیئر پاکستان کو فراہم کیا تھا۔ پاکستان نے اس ڈوزیئر میں دی گئی معلومات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید معلومات طلب کی ہیں۔
بھارت نے پلوامہ حملے کی ایف آئی آر اور عینی شاہدین کے بیانات جیسی بنیادی معلومات بھی پاکستان کو فراہم نہیں کیں۔
حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی ویڈیو کے حوالے سے بھارت نے صرف ایک شخص محمد حسن کا نام لیا ہے لیکن اس شخص کی شناخت کی تفصیل نہیں بتائی۔ پاکستان نے محمد حسن کی مزید تفصیلات بھی مانگی ہیں۔
بھارتی میڈیا نے پلوامہ حملے کے فوراً بعد دعویٰ کیا تھا کہ دھماکہ خیز مواد پاکستان سے آیا لیکن بعد میں اس دعوے سے دستبردار ہوگیا اور بھارتی حکام نے بھی تصدیق کی کہ بارودی مواد مقبوضہ کشمیر میں ہی تیار کیا گیا۔ ڈوزیئر میں بھارت نے بارودی مواد کی تیاری کے حوالے سے کوئی تفصیل بھی نہیں بتائی۔
بھارتی ذرائع کے مطابق ںئی دہلی حکومت مزید معلومات پاکستان کو فراہم نہیں کرے گی۔ اس کے بجائے پاکستان پر عدم تعاون کا الزام عائد کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔
یاد رہے کہ عادل ڈار کی ویڈیو پر پاکستان میں شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے تھے۔ خود بھارت میں بھی دبے لفظوں ان شبہات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے پلوامہ حملہ خود کیا۔ اس حوالے سے تازہ ترین بیان مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کاآیا ہے جنہوں نے ہفتہ کو کہا کہ انہیں پلوامہ پر شکوک ہیں۔