سینیٹ قائمہ کمیٹی پارلیمانی امورنے الیکشن ایکٹ ترمیمی بلز پر ووٹنگ کرائی۔فائل فوٹو
سینیٹ قائمہ کمیٹی پارلیمانی امورنے الیکشن ایکٹ ترمیمی بلز پر ووٹنگ کرائی۔فائل فوٹو

سینیٹ کا اجلاس دوسرے روز بھی نوک جھونک کی نذر ہو گیا

سینیٹ اجلاس کے دوران حکومت اوراپوزیشن کے درمیان  دوسرے روزبھی نوک جھونک جاری رہی۔

مولا بخش چانڈیو، سجاد طوری، سسی پلیجو اور میاں عتیق شیخ بھی ایک دوسرے پر خوب برسے جبکہ مشاہد اللہ نے حکومت پر غصہ اتارا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس کے دوران سندھ کی تقسیم کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان تلخ کلامی چلتی رہی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو اور سجاد طوری کے درمیان اس وقت تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جب مولا بخش چانڈیو نے گورنر سندھ کی جانب سے سندھ کی تقسیم پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مولابخش چانڈیو نے کہا کہ پی ٹی آئی کو وفاقی جماعت کہلواتے ہوئے شرم آنی چاہیے، اشاروں میں ایسی باتیں نہ کی جائیں جو پارلیمنٹ کے وقار کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کوئی مذاق نہیں جو اس کی تقسیم کی بات کرتے ہیں، ایک بار کھل کے بتاؤ مقصد کیا ہے پھر دیکھو سندھ والے آپ کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

سینیٹر مشاہداللہ نے الزام عائد کیا کہ  دواؤں کی قیمتیں بڑھنے سے قبل صدر مملکت گورنر سندھ اور عامرکیانی کی فارماسیوٹیکل نمائندوں سے ملاقات ہوئی ہے، ادویات کی قیمت بڑھنے کا مقصد کئی سو ارب کی گڑبڑ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے جو گورنر صوبہ کی تقسیم کی بات کرے وہ اس عہدے کے لیے اہل نہیں رہتا، گورنر سندھ سے وزیراعظم وضاحت لیں۔

سینیٹرعتیق شیخ حکومتی دفاع میں سامنے آئے توسینیٹرسسی پلیجو نے کہا کہ آپ کا تعلق سندھ سے نہیں آپ نہیں بول سکتے جس پر عتیق شیخ نے کہا کہ کسی کی ذات پر بات نہ کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ سسی پلیجو میری طرف انگلی اٹھا کر بات نہ کریں، میں نے کسی اور کی ذات کے بارے میں بات کی تو بات دورتک چلی جائے۔

میاں عتیق کی تقریر کے دوران پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے شدید احتجاج کیا۔شیری رحمان اور رضا ربانی کی مداخلت کے بعد پی پی سینیٹرز نے احتجاج ختم کیا۔

دوسری جانب سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اپوزیشن نان ایشوز کو ایشو بنا کر تقسیم پیدا کررہی ہے، اپوزیشن عقل سے کام لے، گرے پڑے نہیں، پڑھے لکھے ہیں۔

اس بیان پر پیپلزپارٹی سینیٹرزنے پھر شور شرابہ شروع کر دیا جس بعد اجلاس میں صرف چار سنیٹرز باقی رہ گئے جن میں سے دو حکومتی اور دو اپوزیشن سے تھے۔

منظور کاکڑ، اسد جونیجو، بریگیڈیئر کنیتھ جان اور میر کبیرکے علاوہ چیئرمین دیگراراکین کو  بلاتے رہے اور کہا کہ کوئی اور سینیٹر بولنا چاہتا ہے تو آجائے، کوئی لابی میں بیٹھا ہے تو وہ بھی آجائے لیکن کوئی نہیں آیا۔