نریندرمودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے۔فائل فوٹو
نریندرمودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے۔فائل فوٹو

مسلمانوں کیلیے بری خبر۔بھارت میں پھر مودی سرکار

بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعت کو فیصلہ کن برتری حاصل ہوگئی ہے جس کے بعد نریندرمودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات روشن ہوگئے۔

بھارت میں 29 ریاستوں، دارالحکومت دہلی اور مرکز کے تحت چلنے والے 6 علاقوں کی 542 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا (ایوان زیریں ) کے انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور غیر حتمی نتائج سے  ظاہر ہوتا ہے کہ  بی جے پی کی نفرت آمیز انتہا پسندانہ پالیسیوں اور چال بازیوں کا سحرجنونی ہندوؤں پر تاحال قائم ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق لوک سبھا کی 543 میں سے 542 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کی ووٹنگ مکمل کرلی گئی جس میں انفرادی طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے 300، کانگریس نے 52، اے ڈی ایم کے نے 23، شیو سینا 18 اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں نے 102 نشستیں حاصل کیں۔

غیرحتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے اتحاد ‘نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس’ نے 345 نشستیں حاصل کیں جس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگریس کے اتحاد ‘یونائٹیڈ پروگریسیو الائنس’ نے 94 نشستیں حاصل کیں۔

حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 272 نشستیں درکار ہوتی ہیں اور بی جے پی نے انفرادی طور پر مطلوبہ تعداد سے زیادہ 300 نشستیں حاصل کرلیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے باضابطہ اعلان کے بعد بی جے پی باآسانی مسلسل دوسری مرتبہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد جشن منایا جا رہا ہے
لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد جشن منایا جا رہا ہے

بھارتی انتخابات میں تین بڑے سیاسی اتحاد حصہ لے رہے  تھے، حکمراں جماعت بی جے پی کی سربراہی میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس، کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس اور تیسرا اتحاد مہاگٹھ بندھن ہے جب کہ دیگر مقامی جماعتیں ان کے علاوہ ہیں۔

انتخابی نتائج کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہ مل سکی، پلوامہ حملے کے ذریعے ہندو جذبات کو اکسانے میں کامیاب رہنے والی بی جے پی نے 6 میں 3 نشستیں حاصل کرلیں جب کہ دیگر مقامی جماعتوں نے 3 نشستوں پر کامیابی اپنے نام کی۔

اترپردیش کی 80 نشستوں کے میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے 60 پر برتری حاصل کرکے سب کو حیران کردیا جب کہ کانگریس کی قیادت میں قائم اتحاد یونائیٹڈ پروگرسیو الائنس صرف ایک نشست حاصل کرپائی۔ تیسرے بڑے انتخابی اتحاد مہاگتھ بندھن 19 نشستیں لے اُڑا۔

مہاراشٹرا میں 48 نشستوں کے لیے معرکے میں بھی بی جے پی کے اتحاد نے 43 نشستوں پر میدان مار لیا ہے، مودی کی مسلمان اور اقلیت دشمن پالیسی سے خوش ہندو ووٹرز نے حکمراں جماعت کو جیتوا دیا جب کہ کانگریس صرف 4 نشستیں ہی لے پائی۔

مغربی بنگال میں تنیوں بڑے سیاسی اتحادوں کو چھوٹی اور مقامی جماعتوں نے پیچھے چھوڑ دیا اور 42 میں سے 24 نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی اتحاد 17 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جب کانگریس یہاں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی اور صرف 1 نشست ہی لے سکی۔

بہار میں بھی بی جے پی اتحاد نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوئے 40 میں سے 38 نشستیں حاصل کرکے مخالفین پر واضح برتری حاصل کی جس کے باعث کانگریس کے ہاتھ صرف 2 نشستیں ہی آسکیں۔

تامل ناڈو وہ واحد ریاست ہے جس میں کانگریس نے بھرپور کامیابی سمیٹی اور 38 میں سے 30 نشستوں پر بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کیا، دیگر مقامی جماعتوں نے 5 نشستیں حاصل کرکے بی جے پی کو مزید دھچکا پہنچایا۔ بی جے پی صرف 3 نشستیں لے سکی۔

بی جے پی کے مضبوط گڑھ مدھیہ پردیش میں بھی حکمراں جماعت کا پلڑا بھاری رہا، 29 میں 28 نشستیں لے کر بی جے پی نے کانگریس کے لیے صرف ایک نشست ہی چھوڑی۔ اس ریاست میں بی جے پی کی کامیابی تسلسل جاری ہے۔

کرناٹکا میں بھی مودی سرکار کا فریب کا چلا گیا اور 28 میں 23 نشستیں بی جے پی اتحاد کے ہاتھ آئیں جب کہ کانگریس 3 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے دیگر دو نشستیں مقامی جماعتوں نے حاصل کیں۔

گجرات کا اکھاڑا بھی گجرات کے قصاب مودی کی جماعت بی جے پی کے ہاتھ رہا جہاں مخالف جماعتوں کو ناک آؤٹ کرتے ہوئے 26 کی 26 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے کلین سوئپ کیا۔ ہندو انتہا پسندی جیت گئی۔

آندھرا پردیش کے باسیوں نے تینوں بڑے سیاسی اتحاد پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا، یہ واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی اتحاد، کانگریس اتحاد اور مہاگتھ بندھن کو سر توڑ کوششوں کے باوجود ایک بھی نشسات نہ مل سکی۔ ریاست کی 25 کی نشستوں پر مقامی اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کے اراکین نے کامیابی حاصل کی۔

راجھستان کا میلہ بھی مکمل طور پر  بی جے پی اتحاد ’ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ کے نام رہا جہاں 25 کی 25 نشستیں پر کامیابی حاصل کرکے مخالفین کو چاروں شانے چت کردیا۔

اوڑیسہ دوسری ریاست ہے جہاں پلڑا تین انتخابی اتحادی جماعتوں کے مقابلے میں دیگر مقامی جماعتوں کا بھاری رہا۔ اوڑیسہ کی 21 نشستوں میں سے 14 نشستیں دیگر چھوٹی جماعتیں بڑے اتحادیوں سے لے اُڑیں جب کہ بی جے پی اتحاد کو 7 نشستیں مل سکیں۔

کیرالہ کانگریس کے لیے دوسری خوش بخت ریاست ہے جہاں 20 نشستوں کے لیے میدان سجا اور 15 نشستیں کانگریس اتحاد کی جھولی میں گریں جب کہ دیگر جماعتوں نے 4 اور بی جے پی صرف نشست ہی حاصل کرسکی۔

تلنگانہ وہ تیسری ریاست ہے جہاں ووٹرز نے تینوں بڑے سیاسی اتحاد کے بجائے مقامی جماعتوں کو سرخرو کیا، تلنگانہ کی 17 میں سے 9 نشستیں دیگر جماعتوں کے ہاتھ آئیں جب کہ 4 کانگریس اور 4 ہی پر بی جے پی اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔

جھاڑ کھنڈ کا اکھاڑا 14 میں سے 9 نشتیں حاصل کر کے بی جے پی اتحاد کے نام رہا، کانگریس اتحاد 3 نشستوں سے جیتی اور دیگر جماعتوں نے 2 نشستیں حاصل کیں۔

آسام میں غیر ملکی تارکین وطن اور بالخصوص بنگالی و روہنگیا پناہ گزینوں کیخلاف امتیازی کارروائی پر خوش ہندو انتہا پسندوں نے بی جے پی کو 14 میں سے 10 نشستوں پر کامیابی دلوا دی، دیگر جماعتوں نے 3  جب کہ کانگریس صرف ایک سیٹ لے پائی۔

پنجاب کی 13 میں 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے کانگریس کی گرتی ہوئی مجموعی پوزیشن کو قدرے بہتر سہارا ملا، پنجاب سے بی جے پی اتحاد نے بھی 4 نشستیں لیکر خطرے کی گھنٹی بجادی جب کہ ایک آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔

چھتیس گڑھ بی جے پی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ 11 میں سے 9 نشستیں بی جے پی اتحاد بآسانی لے اُڑا جب کہ کانگریس اتحاد کو محض دو نشستیں ہی مل پائیں۔

ہریانہ کی 10 نشستوں میں سے 9 حکمراں جماعت بی جے پی کے انتخابی اتحاد کو ملیں اور کانگریس کے ہاتھ صرف ایک سیٹ آسکی۔

دارالحکومت دہلی میں حکمراں جماعت بی جے پی کی حکمرانی قائم رہی اور 7 کی نشستوں پر کانگریس کو صفر پر آؤٹ کردیا۔

واضح رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) کے انتخابات 11 اپریل کو شروع ہوئے اور 7 مرحلوں میں 19 مئی کو مکمل ہوئے۔