وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ عبد الحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ قرضوں کی وجہ سے ملکی کرنسی دباؤ کا شکار ہے۔ مشکل صورتحال سے نکلنے کیلیے اقدامات کر رہے ہیں۔
اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 6.2فیصد تھا لیکن معاشی ترقی کی شرح 3.3 فیصد رہی۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے معیشت کی بہتری کے اصلاحات نہیں کیں، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ریکارڈ 20 ارب ڈالرتک پہنچ گیا۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تجارتی خسارہ بھی 32 ارب ڈالرکی حد عبور کر گیا۔ آمدنی اور اخراجات میں کئی سو ارب کا فرق ہے۔ اس فرق کوپورا کرنے کے لیے ٹیکسوں کا دائرہ بڑھائیں گے۔
اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال زرعی شعبے کی شرح نمو 0.85 فیصد رہی جب کہ زرعی شعبے کی شرح نمو کا ہدف 3.8 فیصد تھا۔
بڑی فصلوں کی گروتھ 3 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 6.55 فیصد رہی جب کہ دیگر فصلوں کی ترقی کی شرح 3.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 1.95 فیصد رہی۔
کاٹن جننگ کے شعبے کی گروتھ 8.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 12.74 فیصد رہی، لائیو اسٹاک کے شعبے نے 4 فیصد کی شرح سے ترقی کی، اس شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.8 فیصد تھا۔
ماہی گیری کے شعبے کی ترقی کی شرح 0.79 فیصد رہی جب کہ ماہی گیری کے شعبے کی ترقی کا ہدف 1.8 فیصد تھا، صنعتی شعبے کی ترقی 7.6فیصد ہدف کے مقابلے میں 1.40 فیصد رہی۔
کان کنی کے شعبے کی گروتھ منفی 1.96 فیصد رہی، اس شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.6 فیصد تھا، چھوٹی صنعتوں کی گروتھ ہدف کے مطابق 8.2 فیصد ریکارڈ کی گئی جب کہ تعمیراتی شعبے کی ترقی کی شرح 10 فیصد ہدف کےمقابلے میں 7.57 فیصد رہی۔
خدمات کے شعبے کی ترقی کی شرح 4.71 فیصد رہی تاہم خدمات کے شعبے کی ترقی کا ہدف 6.5 فیصد تھا، تھوک اور پرچون کے کاروبار کی ترقی کی شرح 3.11 فیصد ریکارڈ ہوئی، ان شعبوں کی ترقی کا ہدف 7.8 فیصد تھا۔
ٹرانسپورٹ اسٹوریج اور کمیونیکیشن کے شعبوں میں 3.34 فیصد کی شرح سے گروتھ ہوئی، ان شعبوں کی ترقی کا ہدف 4.9 فیصد مقرر تھا، فنانس اینڈ انشورنس کےشعبوں میں ترقی کی شرح کا ہدف 7.5 فیصد مقرر تھا لیکن ان شعبوں میں ترقی کی شرح 5.14 فیصد رہی۔
ہاؤسنگ سروسز کے شعبے میں ہدف کے مطابق چار فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی، عمومی سرکاری خدمات کے شعبوں میں ترقی کی شرح 7.99 فیصد رہی، ان شعبوں میں ترقی کی شرح کا ہدف 7.2 فیصد مقرر تھا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نےاقتدارسنبھالا تو معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔ معاشی استحکام کیلیے مثبت اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ آئندہ بجٹ میں لوگوں کی امیدوں پر پوری اتریں گے۔ معیشت کو استحکام کے لیے سخت پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے جوریفارمزکرنا تھی نہیں کی۔ میرا مقصد بلیم گیم کرنا نہیں۔ ملکی معاشی استحکام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے 31 ہزار ارب کے قرضے لیے۔ ماضی کی حکومتوں نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا۔
عبد الحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ مشکل صورتحال سےنکلنے کیلیے اقدامات کر رہے ہیں۔ معیشت کو استحکام کے لیے سخت پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ معیشت کو آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ فروری 2019 میں پاک بھارت کشیدگی سے سرمایہ کاری متاثر ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اقتصادی سروے میں اعداد وشمار سو فی صد حقائق پر مبنی ہیں۔ سروے میں معیشت کی کمزوریوں کو اجاگر کیا گیا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہاں کیوں کھڑے ہیں، تمام وسائل کے باوجود کیا چیز مسنگ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کیوں معاشی دقت میں ہیں، عوام کو بتانا ہوگا کہ اس صورتحال میں کیوں ہیں، قرض اتنے ہوچکے کہ آئندہ سالوں میں تین ہزار ارب ان کا سود دینا پڑے گا، باہر سے جو قرضے لئے وہ 100 ارب ڈالر ہیں۔