وزیراعظم عمران خان کے قوم سے متنازع خطاب کے حوالے سے سینیٹ کا ماحول کشیدہ ہوگیا، حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا، ایک دوسرے کے سامنے آنے پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سارجنٹس کو طلب کرلیا۔
سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار ہال کے درمیان میں سارجنٹس ایکٹ آرمز کے 10اہلکاروں کو تعینات کرنا پڑا، ایوان بالا پولیس تھانے کا منظر پیش کررہا تھا جبکہ سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے دھمکی دی ہے کہ وزیراعظم کے متنازع خطاب پر ضرور بات ہوگی، حکومت کی ایسی کی تیسی کردوں گا۔
قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے ان معاملات پر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی خاموشی کو مجرمانہ غفلت قرار دیدیا جس پر ماحول مزید کشیدہ ہوگیا۔
مقررہ وقت پر ساڑھے چار بجے سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا ، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر بہرہ مند تنگی کے بجٹ پر خطاب کے بعد قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق کی مداخلت پر فلور جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سینیٹر مولانا عطا الرحمن کو گزشتہ روز کی اپنی بجٹ تقریر کو مکمل کرنے کیلیے دیدیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے رات کی تاریکی میں بجٹ کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی متنازعہ باتیں کیں ، توہین کا مسئلہ ہے اس پر حکومتی ارکان نے سینیٹ میں شورشرابا شروع کردیا اور کہاکہ مولانا صاحب کو تقریر نہیں کرنے دیں گے۔
اس دوران حکومتی ارکان اور مولانا عطا الرحمن کے درمیان سخت تلخ کلامی ہوگئی، سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کیوں خاموش بیٹھی ہیں یہ مجرمانہ غفلت ہے۔
اس پر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہاکہ وزیراعظم نے کیوں ایسی باتیں کی ہیں جب وزیراعظم نے کوئی بات کی ہے تو کسی بھی رکن کو بولنے کا حق ہے آپ اختلاف رائے کرسکتے ہیں، کسی کو بولنے سے نہیں روک سکتے۔ حکومت اپوزیشن بن گئی ہے جو کام اپوزیشن کا ہوتا ہے وہ حکومتی ارکان نے سنبھال لیا ہے۔
سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہاکہ حکومتی ارکان اپوزیشن بنچوں پر آجایا کریں اور یہاں سے تقریر کرکے پھر حکومتی بنچوں پر چلے جایا کریں۔ آج تو سینیٹ میں اپوزیشن حکومت نظر آرہی ہے ، کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہیے۔
دوبارہ فلور مولانا عطاء الرحمن کو ملا تو انہوں نے کہاکہ میں نے آج تک عمران خان کی ذاتی زندگی پر کبھی کوئی بات نہیں کی ، ایوان بالا کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، میں نے کبھی نہیں کہاکہ وہ کوکین پیتے ہیں ان کے ان ریمارکس پر حکومتی ارکان سینیٹ انتہائی مشتعل ہوگئے۔
سینیٹر نعمان وزیر انتہائی غصے میں تھے ،ایوان بالا مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا تھا اس دوران سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے مولانا عطاء الرحمن کو سمجھا لیا تھا اور حکومتی ارکان کی طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ وہ بھی بات کو سمجھیں۔
میاں رضا ربانی سینیٹر نعمان وزیر کی نشست کے قریب گئے اور کہاکہ انہوں نے بات کرلی ہے آپ بھی ماحول کو سمجھیں۔ تحریک انصاف کے متذکرہ سینیٹر سابق چیئرمین سینیٹ کی بات کو نہ سمجھ پائے اور انتہائی غصے میں آگئے ۔
اس دوران سابق چیئرمین سینیٹ کی طرف ہاتھ لہرائے گئے جس سے ماحول انتہائی کشیدہ ہوگیا۔ چیئرمین سینیٹ کو ایوان کی کارروائی چلانا مشکل ہوگیا، پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان بھی دوڑتے ہوئے حکومتی ارکان کے سامنے آگئے ، چیئرمین سینیٹ نے سارجنٹس ایکٹ آرمز کو طلب کرلیا، فوری طورپر10 سیکورٹی اہلکار ہال میں پہنچ گئے اور دونوں اطراف کے درمیان حصار بنا کر کھڑے ہوگئے اس دوران تلخ کلامی ایک دوسرے کوللکارنے کا سلسلہ جاری رہا۔
اجلاس کے بعد سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ آج تو ایوان بالا پولیس تھانے کا منظر پیش کررہا تھا سینیٹ کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔