ملائیشیا میں ہندوؤں کو بھارت کی مسلمان اقلیت کے مقابلے 100 گنا زیادہ حقوق حاصل ہیں۔فائل فوٹو
ملائیشیا میں ہندوؤں کو بھارت کی مسلمان اقلیت کے مقابلے 100 گنا زیادہ حقوق حاصل ہیں۔فائل فوٹو

ذاکر نائیک پر ملائشیا میں بھی تقاریر اور بیانات جاری کرنے پر پابندی

بھارت کے معروف اسلامک سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک پر ملائشیا میں بھی تقاریر اور بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔کوالالمپور کے وزیر داخلہ محی الدین یٰسین کے مطابق بھارت کے معروف مبلغ ذاکر نائیک کی جانب سے مبینہ طور پر دیے گئے حساس بیانات پراُن سے تفتیش کی گئی ہے ، ملائیشیا میں نسلی و مذہبی بیانات دینا ایک حساس معاملہ ہے، پولیس نے نسل پرستانہ بیانات کا جائزہ لینے کے بعد اُن پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر داخلہ محی الدین یٰسین نے بتایا کہ پولیس ذاکر نائیک اور متعدد دیگر افراد سے نسل پرستانہ بیان دینے اور ایسی جعلی خبریں پھیلانے کے حوالے سے تفتیش کرے گی جس سے عوامی جذبات متاثر ہوئے۔

اُنہوں نے کہا کہ ملائیشیا میں تقریباً 3 کروڑ 20 لاکھ یعنی 60 فیصد ’مالے‘ قوم سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں جبکہ بقیہ آبادی چینیوں، بھارتیوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت ہندو ہے۔

اِن کا مزید کہنا تھا کہ ’میں غیر مسلم شہریوں سمیت ہر ایک کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جو کوئی بھی عوامی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بنے گا قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کر یں گے۔

اپنے ایک بیان میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ ’ ملائیشیا میں ہندوؤں کو بھارت کی مسلمان اقلیت کے مقابلے 100 گنا زیادہ حقوق حاصل ہیں۔‘53 سالہ ڈاکٹر ذاکر نائیک گزشتہ 3 سالوں سے ملائیشیا میں رہائش پذیر ہیں، ملائشیا کی یہ 7ویں ملیکا ریاست ہے جہاں ذاکر نائیک پربندی عائد کی گئی ہے، حال ہی میں انہیں ملائیشیا کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو مالے نسل ( جو زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل ہے ) کی اکثریت کے خلاف مبینہ طور پر ا’کسانے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ملائیشیا کا سرکاری میڈیا ’ برنامہ ‘ کے مطابق ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ذاکر نائیک کو بھارت واپس نہیں بھیجا جائے گا کیوں کہ ان کے تحفظ کو خطرہ ہے۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’اگر کوئی دوسرا ملک ذاکر نائیک کو رکھنا چاہے تو اسے خوش آمدید کہا جائے گا۔‘

اس سے قبل ذاکر نائیک بھارت میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں، ان کا موقف ہے کہ انہیں سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔

یادرہے کہ بھارت نے ذاکر نائیک اور ان کے معاونین پر اپنے پیروکاروں میں دشمنی کا تاثر ابھارنے اور مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے 2016ء میں ان کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن پر پابندی عائد کردی تھی۔