مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ تاجروں کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے کی گئی ملاقات کے بعد حکومت کی قانونی حیثیت ایک آنے کی بھی نہیں رہی۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے سیکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہو گیا ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہماری کشیدگی بہت بڑھ گئی ہے، کشمیر کے حالات سب کے سامنے ہیں، اس موقع پر ہمیں اپنی فوج کو ان کے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے پرسکون چھوڑ دینا چاہیے مگر ہماری فوج گھنٹوں گھنٹوں تاجروں کے ساتھ ان کے مسائل سننے کے لیے وہ کام کر رہی ہے جو وزارت خزانہ اور وزیراعظم کا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ ہم میٹنگز میٹنگز کھیلنے سے زیادہ کام کرنے پہ یقین رکھتے تھے۔مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی جمیعت علمائے اسلام (ف) کے مارچ کے مقاصد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ مارچ کے تین بنیادی مقاصد ہیں: آئین کی بالادستی، حکومت کو گھر بھیجنا اور از سرنو انتخابات، ہم ان تینوں مقاصد کی تکمیل کے لیے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہیں۔
دھرنے میں شریک نہ ہونے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو دھرنے میں اپنے کارکنان کو شامل کرنے کے لیے متحرک کرنے کا وقت چاہیے تھا اسی لیے دونوں جماعتوں نے مارچ موخر کرنے کی بات بھی کی مگر جمعیت علمائے اسلم کی تیاری آٹھ ماہ سے مکمل تھی سو وہ اسے تاخیر کا شکار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
مولانا کے دھرنے میں مدرسے کے بچوں کی شرکت کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کیا کیا کبھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دھرنے میں اسکول اور کالجز کے بچوں کی شرکت پر کسی نے سوال اٹھایا ہے کہ وہ کیوں آتے تھے؟ خواتین شیر خوار بچوں کے ساتھ دھرنے میں کیوں آتی تھیں؟ تو مدرسے کے طلبہ پہ اعتراض کیوں اٹھایا جارہا ہے؟۔