عراق میں حکومت مخالف احتجاج کی تازہ لہر کے دوران جھڑپوں میں کم سے کم 45 افراد ہلاک اور 2000 زخمی ہو گئے۔
حکام کے مطابق جمعے کو ایک بار پھر بغداد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ بغداد میں سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل پھینکے۔ جب کہ جنوبی شہر ناصریہ میں مشتعل مظاہرین کی ایران نواز ملیشیا کے دفتر میں گھسنے کے دوران ہونے والے تصادم میں بھی متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔
عراق میں انسانی حقوق کمشن کے مطابق جمعے کی رات ہونے والی جھڑپوں میں دارالحکومت بغداد میں 8 افراد ہلاک ہوئے۔ جن میں سے پانچ آنسو گیس کے شیلز کا نشانہ بنے۔
اطلاعات کے مطابق جنوبی شہر امارہ میں ہونے والی جھڑپوں میں حساس ادارے کے ایک افسر سمیت ‘اسیب اہل الحق’ ملیشیا کا کارکن بھی ہلاک ہو گئے۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہروں میں اب تک 1800 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ جمعے کو مظاہرین میں شامل 16 سالہ علی محمد کا کہنا تھا کہ ہم روزگار، پانی، بجلی اور تحفظ چاہتے ہیں۔ یہ بنیادی ضروریات ہیں ہیں جو موجودہ حکومت پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جمعے کو مظاہرین دارالحکومت بغداد کے مختلف مقامات پر جمع ہو گئے۔ جس کے بعد پولیس اور سیکورٹی اہل کار انہیں منتشر کرنے کے لیے پہنچ گئے۔
عراقی وزارتَ داخلہ کے ترجمان خالد الموہانہ کے مطابق پرتشدد واقعات سیکورٹی فورسز کے 68 اہل کار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ بصرہ، موتھان، وسیت اور بابل میں غیر معینہ مدت تک کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
عراق کے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ احتجاجی مظاہرے جاری رہے تو حکومت مزید بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے اب تک 170 سے زائد افراد ہلاک جب کہ 6 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ عراق کا شمار تیل برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ تاہم، شہریوں کا گلہ ہے کہ بدعنوانی اور دیگر مسائل کے بعد عراق کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور ایران عراق کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ شہریوں کو یہ بھی گلہ ہے کہ عراق کا امیر طبقہ ان ممالک کے ساتھ ملی بھگت کر کے ایراقی عوام کا استحصال کر رہا ہے۔