امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنگین جنگی جرائم میں ملوث امریکی فوج کے 3افسران کی سزائیں ختم کر کے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قتل اورجنگی جرائم کے مرتکب 3 اعلیٰ سطح امریکی فوج کے افسران کو معاف کر دیا ہے، جس کے بعد ان اہلکاروں کی سزا ختم ہوجائے گی اورانہیں رہا کردیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے حکم سے فائدہ اُٹھانے والوں میں امریکی فوج کے فرسٹ لیفٹیننٹ کلنٹ لورینس بھی شامل ہیں، جنہوں نے 2012 کو افغانستان میں 3 افغان شہریوں پرفائرنگ کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں 2 شہری ہلاک ہو گئے تھے، شہریوں کے غیر مسلح ہونے کے باوجود کلنٹ لورینس نے اپنے ماتحتوں کو افغان شہریوں کی گرفتاری کے بجائے گولیوں سے بھون ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
معصوم شہریوں کو ہلاک کرنے کا حکم دینے کے جرم میں فرسٹ لیٹیننٹ کلنٹ لورینس کو 19 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ گزشتہ 6 سال سے اپنی سزا کاٹ بھی رہے تھے تاہم اب امریکی صدر کے حکم کی تعمیل میں کلنٹ لورینس کو رہائی مل جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے اس کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کے اعلیٰ سطح کے سابق رکن اور ویسٹ پوائنٹ کے گریجویٹ میٹ گولسٹین کے لیے بھی معافی کا اعلان کیا، جن پر2010 میں طالبان کے ایک مبینہ بم ساز کو گرفتار کرنے کے بجائے فائرنگ کرکے قتل کرنے کا الزام تھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں گولسٹین کو امریکی فوج کا ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا کہ گولسٹین کو اپنے ہی ملک کی جانب سے سزائے موت سے بچایا ہے۔
علاوہ ازیں صدر ٹرمپ نے امریکی بحریہ کے ایک افسر ایڈورڈ کیلاگھر کے عہدے سے تنزلی کے حکم نامے کو بھی واپس لے لیا جن پرعراق میں داعش کے زخمی کم سن شدت پسند کو چاقو کے وار سے قتل کرنے کے علاوہ متعدد معصوم شہریوں کو قتل کرنے کے بعد لاشوں پرکھڑے ہوکرتصاویربنانے کا بھی الزام تھا۔
ادھرامریکی بحریہ کے سابق ایڈمرل جیمز اسٹیوریڈس کا جنگی جرائم میں ملوث فوجی اہلکاروں کی رہائی کے حکم نامے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اچھی مثال قائم نہیں۔ ان اہلکاروں کو فوجی ٹرائل کے بعد سزائیں دی گئی تھیں اور صدارتی حکم سے فوجی ٹرائل سسٹم پرحرف آتا ہے۔