ناروے کے صوبہ ویسٹ اگدر کے شہر کرستیان ساند میں مسلمانوں کی تنظیم ’مسلم یونین آف آگدر‘ نے قرآن کی بے حرمتی کرنے والے متعصب شخص’لارش تھورسن‘ کو سخت سزا دلوانے کے لیے ایک ماہر قانون داں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔
کرستیان ساند میں مقیم مسلم یونین آف آگدر کے رکن اور پاکستانی نژاد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ محمد الیاس نے نمائندہ ’جنگ‘ کو بتایا کہ پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے لارش تھورسن پر چارجز لگا دیئے ہیں اور اسی بنا پر اس پر مقدمہ چلایا جائے گا۔
محمد الیاس نے کہا کہ اکمل علی کی سربراہی میں ہماری تنظیم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام مخالف اس انتہاپسند اور متعصب تنظیم پر پابندی کے لیے بھی درخواست دائر کی جائے گی۔
بقول ان کے تنظیم ’سیان‘ اور اس کے عہدیدارغیر مقبول لوگ ہیں اور وہ ناروے کے مہذب معاشرے میں اسلام مخالف مہم چلا کر سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کرستیان شہر کی سماجی اور ثقافتی تنظیموں کے لوگ اس انتہا پسند تنظیم کے افراد کو ان کے متعصبانہ رویّے کی وجہ سے کسی بھی پروگرام میں مدعو نہیں کرتے۔
محمد الیاس گزشتہ کئی سالوں سے کرستیان ساند میں رہائش پذیر ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے دوران ’سیان‘ کے لوگ اس انتظار میں تھے کہ کوئی ان پرحملہ آور ہو تاکہ وہ اس سے یورپی معاشرے میں یہ تاثر ابھاریں اور ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ مسلمان کتنے مشتعل اورانتہا پسند ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے وہ لارش تھورسن کے کیمرے سے بنی ہوئی یک طرفہ ویڈیو ہے، جس میں یہ دکھائی دیا گیا ہے کہ عمر دھابہ اور کچھ دیگر نوجوان اس شخص پرحملہ آور ہو رہے ہیں جبکہ ایک دوسری ویڈیو موجود ہے جسے سوشل میڈیا پر زیادہ نہیں دکھایا گیا جس میں پولیس اس شخص کو روکنے کے لیے چوکنا کھڑی ہے اوراس کی اس حرکت کے بعد نذرِ آتش کیے گئے قرآن کے نسخے سے آگ بجھا رہی ہے۔