خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنگین غداری کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم سنا دیاہے۔
خصوصی عدالت کی جانب سے مختصر فیصلہ جاری کیا گیاہے جس میں کہا گیاہے کہ عدالت نے تین ماہ میں شکایات ، ریکارڈ اور دلائل کا جائزہ لیا ہے ، پرویز مشرف نے آئین توڑا ہے اورآئین کے آرٹیکل چھ کے تحت سزا کے مستحق ہیں،اس لیے انہیں سزائے موت سنائی جاتی ہے ۔ تین میں سے دو ججز نے اکثریتی فیصلہ دیاہے جبکہ ایک جج نے اختلاف کیاہے ۔
اس سے قبل آج خصوصی عدالت میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران عدالت نے استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام کیس میں شامل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں پرویزمشرف سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی،جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ سماعت کررہا ہے،وکیل استغاثہ علی ضیا نے کہا کہ ہم نے آج تین درخواستیں جمع کرائی ہیں ،ایک درخواست چارج شیٹ کی ترمیم کی ہے.
عدالت نے کہاکہ آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ دفاع کی درخواست ہے، اس پر فیصلہ آچکا ہے۔جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ آپ اس چارج شیٹ میں کیوں ترمیم کرنا چاہتے ہیں؟عدالت نے استفسار کیا کہ آپ ان لوگوں کے خلاف درخواست دائر کیوں نہیں کرتے جن پر مددگار ہونے کا الزام ہے؟
وکیل استغاثہ نے کہاکہ نئی شکایت دائر کرنے سے ٹرائل میں تاخیر ہو سکتی ہے،اگر پہلے مرکزی ملزم کاٹرائل مکمل ہو جاتا ہے تو جو مددگارتھے ان کا کیا ہوگا؟.
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جرم میں سہولت کاروں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے،وکیل استغاثہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ کسی وقت بھی شکایت میں ترمیم کی جاسکتی ہے،جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ جن کو آپ شامل جرم کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا تحقیقات ہوئیں؟۔
حکومت نے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست دےدی،حکومت نے شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگراورزاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کردی، پراسیکیوٹر نے کہا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے.
جسٹس شاہد کریم نے کہاکہ ساڑھے 3سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں،عدالت نے کہا کہ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کےخلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزرچکاہے۔
جسٹس نذراکبر نے استفسارکیا کہ کیا شریک ملزمان کےخلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحقیقات ہو سکتی ہیں، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی لگانے کا کہا، جسٹس نذراکبر نے کہاکہ آپ مشرف کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر فیصلہ بھی ہو چکا۔
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی، جسٹس نذراکبر نے کہا کہ ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کیلئے 2ہفتے کی مہلت دی گئی تھی، پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون کے مطابق فرد جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی ہے، جسٹس شاہد کریم نے کہاکہ آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں،کیا حکومت مشرف کے ٹرائل میں تاخیر کرنا چاہتی ہے؟
جسٹس شاہد کریم نے کہاکہ ہم آپ کی درخواست واپس کررہے ہیں،پراسیکیوٹر علی ضیا نے کہاکہ جناب آدھا گھنٹہ دلائل دینے کے بعد درخواست واپس نہ دیں ،جسٹس نذراکبر نے استفسار کیا کہ آپ نے یہ درخواست سماعت سے پہلے کیوں نہیں جمع کرائی ؟وکیل نے کہا کہ ہم نے رجسٹرار کے پاس درخواستیں جمع کرانے کی کوشش کی لیکن ممکن نہ ہو سکا،رجسٹرار خصوصی عدالت نے کہا کہ مجھے کل رات ان کا فون آیا کہ درخواست دینا چاہتے ہیں۔
جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیسے چارج شیٹ میں ترمیم کر سکتے ہیں؟وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے؟عدالت کی اجازت کے بغیرکوئی نئی درخواست نہیں آ سکتی،جسٹس نذراکبر نے کہا کہ چارج شیٹ میں ترمیم کیلیے کوئی باضابطہ درخواست ہی نہیں ملی۔
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے۔جسٹس نذراکبر نے کہاکہ استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے، پراسیکیوٹر علی ضیا نے کہاکہ عدالت سے معذرت خواہ ہوں، جسٹس نذراکبر نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا۔
وکیل استغاثہ علی باجوہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیئر ٹرائل کا فیصلہ بھی آچکا ہے،عدالت نے متعدد بار ہدایت کی کہ استغاثہ اپنے دلائل شروع کرے، جسٹس سیٹھ وقار نے استفسار کیا کہ آپ پرویز مشرف کی بریت کی درخواست کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟ وکلا استغاثہ علی باجوہ اور منیر بھٹی ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم بریت کی درخواست کی مخالفت کریں گے۔
واضح رہے سابق وزیراعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو ایف آئی اے کو انکوائری کے لئے خط لکھا جس میں کہا گیا وزارت داخلہ پرویز مشرف سنگین غداری کے الزامات کی تحقیقات کے لئے خصوصی ٹیم تشکیل دے جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دی۔
ایف آئی اے نے انکوائری کر کے وزارت داخلہ کو اپنی رپورٹ 16 نومبر کو جمع کروائی، انکوائری رپورٹ کے تناظر میں لاء ڈویژن کی مشاورت سے 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی۔ شکایت میں پرویز مشرف کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا تھا۔
خصوصی عدالت نے 24 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کو بطور ملزم طلب کیا، سابق صدر پر 31 مارچ 2014 کو فرد جرم عائد کی گئی، پرویز مشرف نے صحت جرم سے انکار کیا تو ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، 18 ستمبر 2014 کو پراسیکیوشن نے پرویز مشرف کے خلاف شہادتیں مکمل کیں۔
شہادتیں مکمل ہونے پر پرویز مشرف کو بطور ملزم بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا تاحال پرویز مشرف کا بطور ملزم بیان قلم بند نہ کیا جا سکا تھا، پرویز مشرف کو مسلسل عدم حاضری پر پہلے مفرور اور پھر اشتہاری قرار دیا گیا۔
تحریک انصاف حکومت نے 23 اکتوبر 2019 کو پراسیکیوشن ٹیم کو ڈی نوٹیفائی کر دیا، پراسیکیوشن ٹیم کی تعیناتی فوجی دور حکومت میں کی گئی تھی، ڈی نوٹیفائی پراسیکیوشن ٹیم نے 24 نومبر 2019 کو خصوصی عدالت میں تحریری دلائل جمع کروائے۔
خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف کیس کا فیصلہ سنانے کے لئے 28 نومبر کی تاریخ مقرر کی، وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کے وکیل نے فیصلہ روکنے کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ 27 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔