لکھنئو میں بھارتی پولیس نے مسلمان صحافی کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے دھنکی دی کہ سوالوں کے سیدھی طرح جواب دو ورنہ تھماری داڑھی کا ایک ایک بال نوچ لیں گے۔
انگریزی روزنامہ ‘دی ہندو’ کے صحافی عمررشید کو ساتھی سمیت حراست میں لینے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ مظاہروں کے دوران املاک کو تباہ کرنے کا الزام بھی لگا دیا۔
واضع رہے کہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے، کئی مقامات پر پرتشدد احتجاج ہو رہے ہیں، پرتشدد مظاہروں سے اتر پردیش سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، ساتھ ہی ریاست میں پولیس کارروائی پر سوال کھڑے کیے جا رہے ہیں، اس دوران اترپردیش کے لکھنؤ میں ایک ایسا معاملہ سامنے آیا ہے، جس سے پولیس پر سنگین سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔
لکھنؤ میں انگریزی روزنامہ ‘دی ہندو’ کے صحافی عمر رشید کو پولیس نے حراست میں لے لیا تھا، پولیس حراست سے چھوٹنے کے بعد صحافی عمر رشید نے جو آپ بیتی سنائی ہے اسے سن کرہرکوئی دنگ ہے۔
صحافی عمر رشید نے اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کا ذکر کیا ہے جو پولیس کو سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کرتا ہے،انہوں نے بتایا کہ وہ یوپی حکومت کے ذریعہ بلائی گئی پریس کانفرنس کور کرنے گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ جب وہ بی جے پی دفترکے پاس ڈھابے پر بیٹھ کر کچھ کھا رہے تھے، تبھی چار پولیس اہلکار سادہ وردی میں وہاں پہنچے اورانہیں اوران کے ساتھ بیٹھے مقامی کارکن رابن ورما کو حراست میں لے لیا۔
اس کے بعد انہیں قریبی حضرت گنج پولیس تھانے لے جایا گیا، عمر رشید نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے ان کے فون بھی چھین لئے اور انہیں کسی کو بھی فون کرنے کی اجازت نہیں دی۔
صحافی عمر رشید نے بتایا کہ پولیس اسٹیشن میں انہیں ایک کمرے میں لے جایا گیا، انہوں نے بتایا کہ کمرے میں پولیس اہلکاروں نے رابن ورما کو پیٹنا شروع کر دیا۔ عمر رشید نے بتایا کہ رابن کی چمڑے کی بیلٹ سے پٹائی کی گئی اور تھپڑ بھی مارے گئے۔
رشید کہتے ہیں کہ جب انہوں نے خود کو پولیس تھانے لائے جانے پر سوال کیا تو پولیس اہلکاروں نے انہیں خاموش رہنے کی نصیحت دی۔ ساتھ ہی آئی پی سی کی دفعہ 120 بی کے تحت مقدمہ درج کرنے کی دھمکی بھی دی۔
پوچھ گچھ کے دوران پولیس نے صحافی عمر رشید پر مظاہرہ کے دوران جائیداد تباہ کرنے کا الزام لگایا، رشید کہتے ہیں کہ جب انہوں نے بتایا کہ وہ صحافی ہیں اور پولیس اہلکاروں کو اپنا آئی کارڈ دکھایا تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنی صحافت اپنے پاس رکھیں۔
رشید نے بتایا کہ ان کے کشمیری ہونے پر بھی پولیس اہلکاروں نے سوال کیے، پولیس اہلکاروں نے پوچھا کہ بتا تو نے کشمیری لوگوں کو کہاں چھپا کر رکھا ہے، صحافی نے کہا کہ ایک پولیس اہلکار نے انہیں دھمکاتے ہوئے کہا کہ اگر میں نے ان کے سوالوں کے جواب نہیں دیے تو وہ ان کی داڑھی ایک ایک بال نوچ لے گا۔
صحافی رشید کے مطابق پولیس نے انہیں رات 8.30 بجے تک ایک تھانے میں بٹھائے رکھا، انہوں نے بتایا کہ جب ان کی حراست کے سلسلے میں وزیراعلی دفتر سے فون آیا تو انہیں پولیس نے چھوڑا،رشید نے بتايا کہ اس کے بعد پولیس اہلکاروں نے ان سے اپنے رویے کے لیے معافی بھی مانگی۔