سوڈان ميں ايک عدالت نے ملکی سیکيورٹی اداروں کے ستائيس اہلکاروں کے ليے سزائے موت کا حکم ديا ہے۔ مجرمان کو يہ سزا اسی سال ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ايک استاد کواغواکرنے اور اسے تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کرنے پر سنائی گئی ہے۔
سزا يافتہ مجرمان ميں ملکی خفيہ ايجنسی کے29 اہلکاروں کے علاوہ اس جيل ميں تعینات پوليس اہلکار بھی شامل ہيں، جس ميں مقتول استاد کی تشدد کے نتيجے ميں ہلاکت واقع ہوئی تھی۔
سوڈان ميں اس استاد کی ہلاکت حکومت مخالف تحريک ميں ايک اہم موڑ کی حيثيت رکھتی ہے۔ اس واقعے کے بعد مظاہرين ميں ايک نئی تحريک پيدا ہوئی کہ وہ سیکيورٹی فورسز کی ‘ظالمانہ’ کارروائيوں کے خلاف باہر نکليں۔
ايک برس قبل شروع ہونے والے مظاہروں ميں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مظاہروں کے بعد عوام کا مطالبہ تھا کہ اس دوران ہونے والی اموات کی تحقيقات کے ليے آزاد ججز تعينات کيے جائيں۔ يہ مطالبہ اب جا کر پورا ہوا ہے۔
شديد عوامی احتجاج کے بعد بالآخر سوڈانی فوج نے عرصہ دراز سے اقتدار پر قابض سابق صدر عمر البشير کی حکومت ختم کرائی۔ احتجاج کا يہ سلسلہ کھانے پينے کی اشياء کی قيمتوں ميں اضافے سے شروع ہوا تھا۔
مقتول استاد کے بارے ميں پہلے يہ کہا گيا تھا کہ وہ ايک بيماری کے نتيجے ميں ہلاک ہوئے تاہم بعد ازاں رياستی اداروں کی تفتيش سے اس بات کا تعين ہوا کہ مقتول کو شديد تشدد کا نشانہ بنايا گيا تھا۔
دارالحکومت خرطوم ميں عدالتی فيصلہ سامنے آنے کے موقع پر سينکڑوں افراد نے ملکی پرچم لہرا کر اپنے اطمینان کا اظہار بھی کيا۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ سزائے موت کے فيصلے پرعملدرآمد کب ہو گا؟۔