سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو
سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو

جسٹس فائز ریفرنس۔جوڈیشل کونسل میں جج نے کہا میری جائیدادیں نہیں۔حکومت

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس فائزعیسی کیس میں کہا ہے کہ کسی جج سے عداوت ہے نہ ہی دشمنی۔

جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس فائزعیسی اور دیگرکی درخواستوں پر سماعت کی۔

ٹارنی جنرل انور منصور خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کسی جج کیخلاف کوئی عداوت ہے نہ ہی کسی سے دشمنی، ججز کیخلاف جو الزامات ہیں ان کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، جسٹس فائز عیسی کیخلاف الزامات کا جائزہ سپریم جوڈیشل کونسل نے لینا ہے کہ جائیدادیں ان کی ہیں یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاثر ہے لندن جائیدادوں کا براہ راست تعلق جسٹس فائزعیسی کیساتھ ہے، تاثر یہ بھی ہے کہ جسٹس فائز عیسی نے غیرملکی جائیدادوں کیلیے رقم فراہم کی، تاہم سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری سے پہلے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

اٹارنی جنرل نے اپنی گزارشات کے نکات پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیا عدالت عظمیٰ آرٹیکل 184/3کے مقدمے میں ریفرنس کے حقائق کا جائزہ لے سکتی ہے؟ کیا شوکاز نوٹس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج ہو سکتی ہے، جج نے جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام تسلیم کیں، کیا غیراعلانیہ ظاہرنہ کردہ جائیدادوں کی معلومات حاصل کرنا جاسوسی ہے، کیا ایگزیکٹو کو جج کیخلاف ملی معلومات کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جوڈیشل کونسل نے دیکھنا ہے کہ جج نے مس کنڈکٹ کیا یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ میں تین جائیدادیں خریدی گئیں، ایک جائیداد 2004 میں خریدی گئی جس کی 2011 میں تجدید ہوئی، دوسری جائیداد 2013 میں خریدی گئی، 2004 میں جو جائیداد خریدی گئی وہ بہت اہم ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس فائزعیسی کی اہلیہ زرینہ کھوسوکا نام پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں۔2011 میں جائیداد میں بیٹی سحرعلی کا نام بھی شامل کیا گیا،2013 میں جائیدادیں اہلیہ، بیٹی اور بیٹے ارسلان کے نام خریدی گئیں، جوڈیشل کونسل میں جج نے کہا میری جائیدادیں نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اب سوال یہ ہے کہ یہ جائیدادیں جج کو گوشواروں میں باہر کرنی چاہئیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ جائیددیں بچوں اوراہلیہ کے نام پر ہونا درست ہے؟،ان پرالزام یہ ہے کہ برطانیہ کی جائیدادیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیں۔عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔