امریکا اورطالبان نے امن معاہدے پر دستخط کردیے۔فائل فوٹو
امریکا اورطالبان نے امن معاہدے پر دستخط کردیے۔فائل فوٹو

امریکہ نے افغان طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے

امریکہ نے افغان طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے،19سال تک طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا رہنے اورفوجی قوت استعمال کرنے کے بعدافغانستان سے راہ فراراختیارکرنے پرمجبورہوگیا۔

افغانستان میں امن کے لیے امریکا اورطالبان نے امن معاہدے پر دستخط کردیے جس کے مطابق القاعدہ اورداعش پر پابندی ہوگی جبکہ امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی۔

طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادراور امریکا کی طرف سے زلمے خلیل زاد نے امن معاہدے پر دستخط کیے۔

افغان امن معاہدے کے بعد دوسرا مرحلہ مارچ کے اوائل میں شروع ہوگا جس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مقامی ہوٹل میں افغان امن معاہدے پردستخط کی تقریب ہوئی جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت 50 ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی اس تقریب میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ 50 ممالک کے نمائندوں کی شرکت کی، معاہدے پر دستخط کے پیِشِ نظر طالبان کا 31 رکنی وفد بھی قطر کے دارالحکومت میں موجود تھے۔

حیران کن طور پر طالبان کی قید میں 3 سال رہنے والے آسٹریلین یونیورسٹی کے پروفیسر ٹموتھی ویکس بھی معاہدے کی تقریب میں شرکت کیلیے دوحہ میں موجود تھے۔

معاہدے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان طالبان کے نمائندہ ملا عبد الغنی برادر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کے خصوصی طور پر شکر گزار ہیں۔ کامیاب معاہدے پرتمام فریقوں کومبارکباد دیتا ہوں۔

افغانستان میں القاعدہ اور داعش پر پابندی ہوگی، دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتیاں اور فنڈز جمع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی

ان کا کہنا تھا کہ چین ،روس اور انڈو نیشیا سمیت تمام ان ممالک کے شکر گزار ہیں جنہوں نے امن عمل کو سپورٹ کیا۔ ہم اس معاہدے کو نبھانے کے پابند ہیں ،سیاسی طاقت کی حیثیت سے ہم تمام ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قطر حکومت نے معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کردارادا کیا، امن معاہدہ مرحلہ وارمذاکرات کے نیتجے میں ممکن ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ قطر سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا فریقین سمیت عالمی برداری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ہماری حکومت نے معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کردار ادا کیا جس سے افغانستان میں 19 سالہ جنگ کا خاتمہ اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہوگی۔

 

قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امن معاہدہ مرحلہ وار مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوا جبکہ معاہدے کو حتمی شکل دینے پر تمام فریقین کا کردار قابل تعریف ہے۔

امریکی سیکریٹری سٹیٹ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ افغان عوام معاہدے پرخوشیاں منارہے ہیں، طالبان کے معاہدے پر عمل درآمد کو مانیٹر کرتے رہیں گے۔ طالبان تب مذاکرات کے لئے تیار ہوئے جب انہیں یقین ہوا لگا کہ لڑائی کے ذریعہ برتری ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان اورامریکی فورسز نے امن کے لیے ملکرکام کیا۔ تاریخی مذاکرات کی میزبانی پرامیرقطرکے شکرگزارہیں۔

https://twitter.com/soner_toros/status/1233708536561008640

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امن کے لیے زلمے خلیل زاد کا کردارقابل تعریف ہے۔ طالبان کے ساتھ دہائیوں کے بعد اپنے اختلافات ختم کررہے ہیں۔

دوسری طرف افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکی سفارتکاروں کے ساتھ امن معاہدے سے قبل طالبان نے اپنے حامیوں کو ہر قسم کے حملے کرنے سے روک دیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم حکم دیتے ہیں کہ قوم کی خوشیوں کے لیے ہر قسم کے حملوں سے باز رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہمیں امید ہے کہ امریکا مذاکرات اور امن معاہدے کے دوران اپنے وعدے پر قائم رہے گا لیکن غیرملکی افواج کے طیارے طالبان کے علاقوں پر پرواز کرع رہے ہیں جو اشتعال انگیزی پر مبنی اقدام ہے۔

معاہدے سے قبل امریکا اور افغان حکومت کا مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ طالبان نے معاہدے پر عمل کیا تو امریکا اور اتحادی 14 ماہ تک افغانستان سے تمام افواج نکال لیں گے۔

مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکا معاہدہ کے 135 دنوں کے اندر فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا، فوجیوں کا انخلا طالبان کے معاہدے پر عمل در آ٘مد سے مشروط ہوگا، افغان حکومت سلامتی کونسل کے ساتھ مل 29 مئی تک طالبان کے نمائندوں کے نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے گی۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور دیگر برادر ممالک کے تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، معاہدے میں اہم کرداراداکرنےپرامریکی وزیردفاع کےشکر گزار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں افغان عوام نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ 19 سالوں میں 1 کروڑ لوگ بے گھر ہوئے، تمام فریقین معاہدے کی پاسداری کریں گے،

واضح رہے کہ دستخط تقریب سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان عوام پر نئے مستقبل سے فائدہ اٹھانے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے سے 18 سالہ تنازع ختم ہونے کا امکان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اور افغانستان کی حکومت ان وعدوں پر قائم رہتے ہیں تو ہمارے پاس افغانستان میں جنگ ختم کرنے اور اپنے فوجیوں کو گھر واپس لانے کا بہترین راستہ ہوگا۔

علاوہ ازیں برطانوی خبر رساں ادارے سے طالبان رہنما ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ طالبان کے لیے معاہدے کی شرائط سخت نہیں ہے سوائے اسکے کہ افغان تنازع سیاسی بات چیت کے ذریعے حل ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے اس پر مشورہ بھی کیا ہے کیونکہ طالبان نہیں چاہتے کہ سوویت یونین کے نکلنے کے بعد افغانستان میں مجاہدین والا تجربہ دہرایا جائے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ جنگ کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل شروع ہو جو صلح اور اتفاق سے ہی ممکن ہے اور یہ افغانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

اس تاریخی موقع کے حوالے سے قطر میں مقیم وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ امریکا اورافغان طالبان کے درمیان امن معاہدے سے خطے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ افغانستان میں امن سے وسطی ایشیا کے ساتھ ہمارے روابط بڑھیں گے۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ امن واستحکام سے پاکستان اورافغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے شاندار مواقع پیدا ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کو کاسا1000منصوبے سے استفادہ کرنے اور ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہی امریکا اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے متعدد مرتبہ بات چیت کی تھی۔ گزشتہ برس اگست 2019ء میں دونوں فریق ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بہت قریب آگئے تھے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ستمبر میں افغانستان میں طالبان سے امریکی فوجیوں پر حملے کے بعد مذاکرات روک دیے تھے۔

لیکن چند ہی ہفتوں کے اندر دوحہ مذاکرات کے لیے ایک مرتب پھر راہ ہموار ہوگئی، اور ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت ختم کرنے کے پانچ ماہ سے بھی کم عرصے میں امریکا اور طالبان اب ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے۔

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ حکومت نے طالبان سے ابتدائی رابطے قائم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ طالبان کی جانب سے کیے گئے مطالبے کے نتیجے میں کمیٹی قائم کی ہے اور طالبان کے مطالبے ہمارے بین الاقوامی اتحادیوں نے ہم تک پہنچائے ہیں۔

امریکا طالبان امن معاہدے کے اہم نکات

معاہدے کے تحت طالبان افغان سرزمین کو امریکا اور اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے، عالمی مبصرین امن معاہدے کی پاسداری کے ضامن ہوں گے۔ طالبان 10 مارچ کو افغانستان کے اندر مختلف گروہوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں گے جہاں فریقین کے درمیان جنگ بندی کی تاریخ طے پائے گی۔

امریکا اور اتحادی 14 ماہ میں تمام افواج، غیر سفارتی سویلینز، پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز اور ایڈوائزرز کا انخلایقینی بنایا جائے گا، معاہدہ کے 135 دن کے اندر 5 فوجی اڈوں سے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا۔

معاہدے کے تحت امریکا فریقین کے ساتھ مل کر سیاسی اور جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے منصوبہ بنائے گا، 10 مارچ تک طالبان کے 5 ہزار جبکہ طالبان کی جانب سے 1 ہزار قیدی رہا کئے جائیں گے۔

امریکا27 اگست تک طالبان کے تمام ممبران سے پابندی ہٹائے گا جبکہ سلامتی کونسل کے ساتھ سفارتی کوششوں کے ذریعہ 29 مئی تک طالبان کے نمائندوں کے نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے جائیں گے۔
معاہدے کی رو سے طالبان امریکا اور اتحادیوں کے لئے خطرہ بننے والے افراد کو واضح پیغام پہنچانے کے پابند ہوں گے، طالبان امریکا اور اتحادیوں کی حفاظت کی خاطر افراد اور گروہوں کو بھرتیاں کرنے، تربیت کرنے اور فنڈ ریزنگ سے روکیں گے۔

طالبان تمام پناہ گزینوں کے ساتھ بین الاقوامی ہجرت کے قانون اور اس معاہدے کے مطابق سلوک کریں گے تا کہ کوئی فرد امریکا کے لئے خطرہ نہ بنے۔

طالبان افغانستا ن میں داخلے کے لئے ان لوگوں کو ویزہ، پاسپورٹ اوردیگر قانونی دستاویز جاری نہیں کریں گے جو امریکا اورا تحادیوں کے لئے خطرہ ہوں۔

معاہدے میں طے پایا کہ امریکا معاہدہ کی توثیق کے لئے سلامتی کونسل سے درخواست کرے گا، بین الافغان مذاکرات کے بعد قا ئم ہونے والی اسلامی حکومت کے ساتھ امریکا کے مثبت تعلقات ہونگے۔

امریکا مذاکرات کے بعد قائم ہونے والی افغان حکومت کے ساتھ تعمیر وترقی کے لئے معاشی تعاون کرے گا، معاہدے کے تحت امریکا افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔