ترک صدر طیب اردوان اور روسی صدر پوتن کے درمیان 6 گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں شام کے علاقے ادلب میں فائربندی پراتفاق کرلیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر طیب اردوان نے شام کی کشیدہ صورت حال پر بات چیت کرنے کے لیے تیسری بار صدر پوتن سے روسی دارالحکومت ماسکو میں ملاقات کی، دونوں رہنماؤں نے مسلسل 6 گھنٹوں تک مشرق وسطیٰ کی صورت حال پرباالعموم اورادلب سے متعلق بالخصوص تبادلہ خیال کیا اور سیز فائر سمیت کئی اہم نکات پراتفاق کرلیا گیا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ترک صدر نے شام کے علاقے ادلب میں جنگ بندی کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ ادلب میں قیام پذیر 4 ملین افراد دہشت گرد نہیں کہ جن پر بمباری کی کھلی اجازت دیدی جائے۔ معصوم شہریوں اوران کی املاک پر حملوں کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔
ترک صدر نے مزید کہا کہ جنگ زدہ علاقے سے ڈیڑھ ملین پناہ گزین اپنے گھرباراورکاروبارکوچھوڑکر ترکی کی سرحدوں کے قریب جمع ہوچکے ہیں، ترکی میں پہلے ہی پناہ گزین لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں جو اپنے گھروں کو جانے کیلیے بے تاب ہیں لیکن حالات اب بھی سازگار نہیں۔
صدر اردوان نے کہا کہ ایسی صورت حال میں مزید ڈیڑھ ملین پناہ گزینوں کے معاملے پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ شامی صدر بشار الاسد نے 2018 کے ’سوچی معاہدے‘ کی خلاف ورزی کی ہے اور ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس موقع پرمیزبان صدر پوتن نے ترکی کے صدر کی آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس اہم اور حساس معاملے کو حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جنگ بندی کے ذریعے شہریوں کی اذیت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تباہ حال املاک اوراپنے پیاروں کو کھو دینے والے غم سے نڈھال شہریوں کی امداد اور انہیں پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک دستاویز تیار کرلی ہے۔
بعد ازاں ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو اور روسی وزیر خارجہ سیرگی لاوروف نے اس اہم ملاقات میں طے پانے والے نکات میڈیا کو پڑھ کر سنائے جس کے مطابق ادلب میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے ساتھ ہی تمام فوجی سرگرمیاں ختم کردی جائیں گی، اہم اور مرکزی شاہراہ M-4 کے شمال اور جنوب میں 6 کلومیٹر کی گہرائی میں ایک محفوظ راہداری قائم کی جائے گی جب کہ ترک اور روس
واضح رہے کہ ادلب میں داعش کے آخری ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے دوران اس علاقے میں کردوں کیخلاف آپریشن میں مصروف ترک فوجی بھی روسی فضائیہ کے حملوں کی زد میں آگئے تھے اور دو ماہ کے دوران 50 سے زائد ترک اہلکار روسی و شامی کے فوج حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں جس کے جواب میں ترکی نے بھی شامی فوج کے تین طیارے مار گرانے اور درجنوں شامی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔