احتساب عدالت نے جیو اور جنگ کے مالک میر شکیل الرحمن کو 11 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا ہے اور24 مارچ کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
ماعت کے دوران عدالت نے نیب پراسیکوٹر سے سوال کیا کہ میر شکیل الرحمن کو گرفتار کیوں کیا؟پراسکیوٹر حافظ اسد اللہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دسمبر 2019 میں میر شکیل الرحمن کے خلاف تحقیقات شروع کی، میر شکیل نے نواز شریف سے 54 پلاٹ فی کنال حاصل کیے جب وہ وزیراعلیٰ تھے، غیر قانونی طریقے سے ایل ڈی اے کے پلاٹ نام کروائے گئے،میر شکیل الرحمن ان پلاٹوں سے متعلق ریکارڈ فراہم نہیں کرسکے۔
اعتزازاحسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے پاس میرشکیل الرحمن کو گرفتارکرنے کا اختیار نہیں،نیب کے چیئرمین نے وارنٹ گرفتاری پردستخط کیے،ہمیں ابھی تک وارنٹ گرفتاری نہیں دیا گیا۔
وکیل اعتزازاحسن نے کہاکہ 34سال بعدمیرشکیل الرحمان کو گرفتار کیا گیا جو بدنیتی ثابت کرتا ہے، میرشکیل الرحمان نے ایل ڈی اے سے زمین نہیں خریدی،زمین تیسرے بندے سے قانون کے مطابق خریدی گئی،میرے موکل کی زمین میں کسی بھی قسم کی دو نمبری نہیں۔
اعتزاز احسن کا کہناتھا کہ میرے موکل کا نام میر شکیل الرحمن ہے اس وجہ سےاسے گرفتارکیا گیا،کچھ لوگ میرے موکل پرتنقید کرنے سے بازنہیں آتے،نیب نے میرشکیل الرحمن کو کوئی نوٹس نہیں دیا،بزنس مین کو طلب کرنے سے پہلے قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا،خلاف قانون کارروائی نیب کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔
نیب نے 28 فروری کو طلبی کا نوٹس دیا،میر شکیل الرحمن نے کس طرح قانون کی خلاف ورزی کی؟میر شکیل الرحمن نے پرائیوٹ افراد سے زمین خریدی، میر شکیل الرحمن کو تنقید کرنے پرگرفتارکیا گیا ہے،نیب نے جب میر شکیل الرحمن کو طلب کیا وہ پیش ہوئے،12 مارچ کو دوبارہ میر شکیل الرحمن نیب کے سامنے پیش ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ نیب نے کوئی بات نہیں پوچھی بس کہا چیئرمین نیب کا حکم ہے،آپ کوگرفتارکیاجاتا ہے،میر شکیل الرحمن کہیں نہیں جارہے،نیب نے میرشکیل الرحمن کاموقف نہیں سنا اورگرفتار کرلیا،شاہد خاقان عباسی کو بھی نیب نے اسی طرح گرفتار کیا تھا ،گزشتہ روز میر شکیل الرحمن نیب کے سوالوں کے جواب لے کرگئے تھے۔
سماعت کے آغازپراعتزاز احسن نے عدالت سے اپنے موکل میر شکیل الرحمن سے ملاقات کی اجازت مانگی اورکہا کہ ابھی وکالت نامے پر دستخط کیے ہیں ، مجھے میرے موکل سے ملاقات کی اجازت دی جائے ۔ عدالت نے اعتزاز احسن کی درخواست قبول کرتے ہوئے الگ ملاقات کی اجازت دیدی اور سماعت کو کچھ دیر کیلیے ملتوی کی۔