لاہورکی احتساب عدالت نے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ اورجیوکے ایڈیٹرانچیف میر شکیل الرحمن کے جسمانی ریمانڈ میں 7 اپریل تک توسیع کردی۔
میرشکیل الرحمن کے خلاف نیب کی درخواست پر سماعت احتساب عدالت کے ڈیوٹی جج جواد الحسن نے کی۔
دوران سماعت میرشکیل الرحمن کے وکیل نے استدعا کی کہ اپنے مؤکل سے مشاورت کرنے کے لیے کچھ وقت فراہم کیا جائے جس پرعدالت نے کہا کہ آپ کو مشاورت کرنےکا حق حاصل ہے۔
عدالت نے میر شکیل الرحمن اوران کے وکیل کو آپس میں مشاورت کی مہلت فراہم کرنے کی استدعا منظورکرتے ہوئے سماعت کچھ دیرکےلیےملتوی کردی۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نیب پراسیکیوٹرنے الزام عائد کیا کہ میر شکیل الرحمن کو جو زمین فراہم کی گئی وہ غیرقانونی طورپرٹرانسفرکی گئی،ایل ڈی اے نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف کے حکم پرزمین دی۔
نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ اس وقت ایل ڈی اے سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے بیک وقت زمین میر شکیل الرحمن کے نام کرنے کا حکم دیا، ایل ڈی اے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں ان کا خیال نہیں رکھا گیا۔
پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ میرشکیل الرحمان کو زمین تین مختلف جگہوں پر الاٹ کی گئی، میر شکیل الرحمان نے غیرقانونی طورپر یہ زمین ایک جگہ پرالاٹ کروائی۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ قانون کے مطابق دلائل دیں سیاسی باتیں نہ کریں۔
نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ سابق ڈی جی ایل ڈی اے کو بلوایا تھا، سابق ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ انہیں تمام ریکارڈ فراہم کر دیں، وہ تمام ریکارڈ دیکھ کرتفصیلی جواب دیں گے۔
نیب کے تفتیشی افسر نے میر شکیل الرحمن کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی جس پر میر شکیل الرحمن کے وکیل نے کہا کہ مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔
امجد پرویزایڈوکیٹ نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع نہ دی جائے، ایسا کونسا قتل کا کیس ہے جس میں آلہ قتل برآمد کرنا ہے۔
عدالت نے نیب افسر سے پوچھا کہ پٹواری نے ایل ڈی اے کو قبضہ کب دیا؟ پہلے ایل ڈی اے کو قبضہ ملے گا تب ہی ایل ڈی اے آگے زمین منتقل کرے گا۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹرسے استفسارکیا کہ آپ کو جسمانی ریمانڈ اب کیوں چاہیے؟ جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ سابق ڈی جی ایل ڈی اے اور میرشکیل الرحمن کے ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے۔
عدالت نے نیب کے تفتیشی افسر سے کہا کہ ریکارڈ دکھائیں اور بتائیں کب ایل ڈی اے کو قبضہ کب ملا۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اس اراضی کے کتنے مالک ہیں؟ جس پر نیب کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس اراضی کا ایک ہی مالک ہے۔
میر شکیل الرحمن کے وکیل نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس اراضی کے 7 افراد مالک ہیں،اگر اراضی کا ایک ہی مالک ہوا تو میں عدالت سے باہر چلاجاؤں گا۔
میر شکیل کے وکیل امجد پرویز بٹ نے کہا کہ نیب کا الزام ہی درست نہیں ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ پھر تو کیس کی نوعیت ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔
میر شکیل الرحمن کے وکیل نے مؤقف اختیارکیا کہ نیب کی تاریخ میں پہلی بار ایسا کیس سامنے آیا ہے، چیئرمین نیب نے ذاتی طور پر میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور اپنے ہی بنائے گئے قوانین کی دھجیاں بکھیر دیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ میر شکیل الرحمان تمام ریکارڈ نیب کو فراہم کرچکے ہیں، میر شکیل الرحمان کو جب بھی نیب نے بلوایا وہ پیش ہوئے لیکن نیب نے قانون سے آگے جا کر کارروائی کی۔
وکیل نے اپنے دلائل میں سوال کیا کہ تفتیش کے دوران گرفتاری کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟ یہ واحد کیس ہے جس میں چیئرمین نیب کو اتنی جلدی تھی۔
امجد پرویزایڈووکیٹ نے کہا کہ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری بادی النظرمیں غیرقانونی تھی، برصغیر کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انکوائری پرگرفتارکرلیا جائے۔
احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد میر شکیل الرحمن کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سناتے ہوئے جسمانی ریمانڈ میں مزید 7 اپریل تک توسیع کردی۔
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے 12 مارچ کو 34 برس قبل مبینہ طور پر حکومتی عہدے دار سے غیرقانونی طورپرجائیداد خریدنے کے کیس میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کو حراست میں لیا۔